کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان سالنگ خان گزشتہ کئی برسوں سے دنیا بھر کی تاریخی و ثقافتی نوادرات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے انکشاف کیاکہ ان کے پاس موجود نوادرات صرف پرانی اشیا نہیں بلکہ پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور افریقی سمیت مختلف تہذیبوں کا ثقافتی ورثہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شندور پولو فیسٹیول: فلک بوس میدان میں روایت، جرأت اور ثقافت کی جیت
سالنگ خان کے مطابق یہ اشیا ونٹیج کیٹیگری میں آتی ہیں، ان میں زیادہ تر 50 سال یا اس سے زیادہ پرانی ہیں، ہم ان اشیا کو ’نوادرات‘ نہیں بلکہ ’ثقافتی یادگاریں‘ کہتے ہیں۔
ان کے پاس موجود چیزوں میں تلواریں، نیزے، ڈھالیں، قدیم دوربینیں، پرانی گھڑیاں، انگوٹھیاں، ہاتھ سے بنے قالین، برتن اور دیگر سینکڑوں نایاب اشیا شامل ہیں۔ ان اشیا کی قیمت 500 روپے سے لے کر 50 ہزار روپے تک ہے۔
سالنگ خان نے بتایا کہ ان کے کلیکشن میں قدیم مصر کی تہذیب کے نمونے بھی موجود ہیں۔ ’یہ اصلی نہیں ہیں کیونکہ اصلی نوادرات دنیا میں کہیں بھی عام دستیاب نہیں، لیکن یہ نقلیں ہم نے اس کلچر کی نمائندگی کے لیے سنبھال رکھی ہیں۔‘
سالنگ خان کے مطابق اس کاروبار میں مالی فائدہ محدود ہے، مگر وہ اسے محض کاروبار نہیں، بلکہ شوق اور ثقافتی خدمت سمجھ کر کرتے ہیں۔ ’یہ منافع کا نہیں، لگاؤ کا کام ہے۔ لوگ آتے ہیں، چیزوں کو دیکھتے ہیں، ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہی اصل فائدہ ہے۔‘
معروف شخصیات بھی ان کے کلیکشن کو دیکھنے آتی ہیں۔ ’ہمارے پاس نواب ایاز خان جوگیزئی اور واچ کلیکٹر گل کاکڑ جیسے معروف افراد آ چکے ہیں، جو ہمارے کلیکشن میں سنجیدہ دلچسپی لیتے ہیں۔‘
سالنگ خان نے یہ شوق اپنے والد سے حاصل کیا جو خود ان چیزوں کے شوقین تھے۔ ’میں چاہتا ہوں کہ لوگ ان نوادرات کو صرف دیکھیں نہیں، بلکہ انہیں محسوس کریں، ان کی کہانی کو سمجھیں اور ان کی قدر کریں۔‘
یہ بھی پڑھیں: بنا ویسٹ کوٹ کوئٹہ میں ثقافتی پہناوا ادھورا کیوں؟
سالنگ خان کی یہ کاوش نہ صرف بلوچستان کی ثقافت کی نمائندگی ہے بلکہ مختلف قوموں کے درمیان تاریخی اور تہذیبی رشتوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ وہ ایک باقاعدہ نمائش گاہ قائم کریں جہاں عام لوگ آ کر ان قدیم تہذیبوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔ مزید جانیے غالب نہاد کی اس رپورٹ میں۔