برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین سمیت 25 ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر جاری جنگ کو فوری طور پر بند کرے، کیونکہ فلسطینیوں کی مشکلات ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی ہیں۔
پیر کو جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں عام شہریوں کی تکالیف نے نئی گہرائیوں کو چھو لیا ہے، جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔ بیان میں فلسطینی جنگجوؤں کے قبضے میں موجود مغویوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی پر بھی زور دیا گیا۔
مشترکہ بیان میں اسرائیل کے امدادی ماڈل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ خوراک اور پانی کے متلاشی بچوں سمیت عام شہریوں کے قتل اور امداد کی بوند بوند فراہمی انسانیت سوز ہے۔ غزہ کی وزارت صحت اور اقوام متحدہ کے مطابق، مئی کے آخر سے اب تک امداد کے حصول کی کوشش میں 875 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:پوپ لیو اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے درمیان غزہ تنازع پر پہلا باضابطہ رابطہ
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کا امدادی نظام خطرناک ہے، یہ عدم استحکام کو ہوا دیتا ہے اور فلسطینیوں کی انسانی عظمت کو پامال کرتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کو بنیادی انسانی امداد سے محروم رکھنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے برطانوی پارلیمان سے خطاب میں امریکا، قطر اور مصر کی سفارتی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کا کوئی عسکری حل نہیں۔ اب جو جنگ بندی ہو، وہ آخری ہونی چاہیے۔
الجزیرہ کے مطابق، یہ بیان اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کی جانب سے ایک نمایاں اور سخت سفارتی مؤقف کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صرف یورپ تک محدود نہیں بلکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور کینیڈا جیسے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں، جو عالمی رائے عامہ میں اہم کردار رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں:خوراک کی تلاش میں موت: غزہ میں فائرنگ اور بھوک نے 134 زندگیاں نگل لیں
اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد غزہ پر جنگ مسلط کی تھی، جس میں 1,129 اسرائیلی ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے۔ ان میں سے اب صرف 50 یرغمالی باقی ہیں، جن میں سے بھی نصف سے کم کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی حملوں میں اب تک غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 59 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ شامل ممالک خطے میں سیاسی حل کے لیے عملی اقدامات کرنے کو تیار ہیں، تاکہ پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ تاہم، اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اب بھی فوجی دباؤ کو مذاکرات کی حکمتِ عملی سمجھتے ہیں، اور مستقل جنگ بندی کے امکانات اب تک معدوم نظر آتے ہیں۔