ماڈل ٹاؤن 1921 میں قائم ہوا جو دیوان کھیم چند کے ایک ‘گارڈن ٹاؤن’ کے قیام کے خواب کے نتیجے میں سامنے آیا۔
27 فروری 1921 کو رائے بہادر گنگا رام کی زیرِ صدارت لاہور کے ٹاؤن ہال میں تقریباً 200 افراد جمع ہوئے اور ایک کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب ماڈل ٹاون آباد کیا گیا اس وقت یہاں ہندو اور سکھ برداری کی آبادی زیادہ رہائش پذیر ہوئی۔ اس سوسائٹی کے اندر پہلے سے ہی ایک مندر موجود تھا جو رام مندر کے نام سے مشہور ہوا، لیکن اب اس مندر میں بھگوان نہیں ہیں ہاں مگر کبوتر ضرور موجود رہتے ہیں۔
مندر، مسجد اور اسکول
ماڈل ٹاون کا یہ مندر اب زبوں حالی کا شکار ہے اور مندر کے اندر کبوتروں کا بسیرا ہے۔ ہندوؤں کی اس عبادت گاہ کے بالکل ملحق لڑکیوں کا اسکول ہے جو اس مندر کے اندر جانے کے لیے واحد راستہ تھا۔ مندر کے احاطے میں ہی لڑکیوں کا سرکاری اسکول تعمیر ہے لہٰذا مندر کے ایک کمرے کی جگہ کو چار دیواری کرکے بند کردیا گیا ہے۔
اس مندر کے بالکل سامنے مسجد بھی موجود ہے اور اگر تھوڑے فاصلے سے ان دونوں کو دیکھا جائے تو یہ مندر کا مینار اور مسجد کا محراب ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اب مسجد آباد اور مندر ویران ہے۔
مندر جانے کے تمام راستے بند ہیں
جب ہندو یہاں سے چلے گئے تو اس جگہ پر مسلمان آباد ہوگئے اور یوں جو راستے اس مندر کے اندر کی طرف جاتے تھے وہ بند ہوگئے۔ یہاں پر رہنے والے رہائشیوں کے مطابق یہاں اب کوئی ہندو رہائش پذیر نہیں ہے مگر اس کے باوجود مندر کو گرایا نہیں گیا بلکہ مندر کی حفاظت کے لیے اس کے اطراف کے راستوں کو بند کردیا گیا ہے تاکہ اس مندر کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
کیا لڑکیوں کا اسکول مندر کی جگہ پر تعمیر ہوا؟
وی نیوز نے رہائشیوں سے پوچھا کہ جس جگہ اب یہ اسکول ہے کیا یہ مندر کی جگہ تھی؟ جس پر رہائشیوں کا کہنا تھا کہ یہ کافی بڑی جگہ تھی جو خالی پڑی ہوئی تھی۔استعمال میں نہ ہونے کی وجہ ہر کسی کی نظر اس جگہ پر تھی لہٰذا انتظامیہ سے مشاورت کے ساتھ یہاں پر لڑکیوں کا سرکاری اسکول تعمیر کروایا تاکہ اس جگہ کو استعمال کیا جائے اور عبادت گاہ میں جو کمرہ تھا اس کے اطراف میں چار دیواری کردی گی تاکہ عبادت گاہ محفوظ رہے۔
’رات کو مندر کے اندر سے آوازیں آتی ہیں‘
وی نیوز کو رہائشیوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مندر کے اندر سے رات کے وقت عجیب قسم کی آوازیں بھی آتی ہیں جس سے محلے کے اندر ایک خوف سا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دن کے وقت یہاں چہل قدمی رہتی ہے مگر آدھی رات کو اس کے پاس سے گزارنا مشکل ہوتا ہے اور اگر ہمیں رات میں باہر جانا ہو تو پھر ہم ٹولیوں کی شکل میں یہاں سے گزرتے ہیں۔
مندر کے اندر شادیاں
یہاں پر رہنے والوں نے وی نیوز کو یہ بھی بتایا کہ اس مندر میں کافی شادیاں ہوتی تھیں اور ہندو رسم و رواج کے تحت یہاں پر پنڈت بیٹھتا تھا اور سات پھیروں والی رسم کروائی جاتی تھی۔ پھر بتدریج ہندو یہاں سے جاتے رہے لیکن مسلمان بھی آباد ہونے کے بعد اس جگہ کو کئی عرصے تک شادی بیاہ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
مندر مارکیٹ
اس مندر کے اطراف ایک گول مارکیٹ ہے جو مندر مارکیٹ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مارکیٹ میں ہوٹل، اسٹورز اور ہیلتھ کلب سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والی اشیا کی دکانیں موجود ہیں جہاں ہر وقت گہماگہمی رہتی ہے۔
ہندوؤں کی تحریریں اور مندر کی خستہ حالی
یہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس مندر کے اندر ہندوؤں کی تحریریں موجود ہیں جو ہندو زبان میں لکھی گئیں ہیں۔ مندر کے کمرے کے باہر سنگِ بنیاد کی تختی بھی لگی ہوئی ہے لیکن اب اس کی حالت خاصی خستہ ہوچکی ہے اور دیواروں پر لگی اس وقت کی اینٹیں اب گرنا شروع ہوگئی ہیں، اور جہاں کبھی گھنٹی کا شور رہتا تھا وہاں اب صرف خاموشی ہوتی ہے۔