امریکی ریاست ہوائی کے جنگلات میں ڈرون کے ذریعے سینکڑوں بایوڈیگریڈیبل پوڈز گرائے گئے جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 1ہزار نر مچھر موجود تھے۔ سائنسدانوں اسے ‘اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’ کا نام دیا ہے جس کے ذریعے ناپسندیدہ اور نقصان دہ مچھروں کی آبادی کو دوسرے مچھروں کے ذریعے قابو کرنا ہے۔
یہ مچھر خاص طور پر لیبارٹری میں تیار کیے گئے تھے جو کاٹتے نہیں اور جب یہ مادہ مچھروں سے ملاپ کرتے ہیں تو ان کے انڈے نہیں پھوٹتے۔ یوں یہ اپنا کام سرانجام دینے کے بعد افزائش نسل نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: چین نے مچھر جتنا چھوٹا جدید ڈرون تیار کرلیا، مقاصد کیا ہیں؟
اس اقدام کا مقصد ہوائی کے جزیرے میں غیرملکی مچھر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے جو مقامی پرندوں، خاص طور پر نایاب ہنی کریپرز کو ملیریا جیسی بیماریاں پھیلا کر ختم کر رہے ہیں۔ مچھروں کی وجہ سے پھیلائی گئی بیماریوں کی وجہ سے ان پرندوں میں سے صرف 17 اقسام باقی رہ گئی ہیں اور بیشتر خطرے سے دوچار ہیں۔
ہوائی میں مچھر 1826 میں متعارف ہوئے اور اب یہ پہاڑی علاقوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مقامی پرندوں کا مسکن ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اب ان علاقوں میں بھی مچھر پائے جا رہے ہیں جہاں پہلے نہیں ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: مچھروں کو ملیریا سے بچانے کے لیے دوا ڈھونڈ لی گئی، آپ بھی چکرا گئے نا!
ان نقصان دہ مچھروں کی تعداد کو قابو میں لانے کے لیے روایتی کیمیکل اسپرے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ جنگلات میں موجود مفید کیڑوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے سائنسدانوں نے ‘اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے جو صرف نر مچھر چھوڑ کر نقصان دہ مچھر کی نسل کشی کرتا ہے۔
ہوائی میں2022 میں اس منصوبے کو وسعت دی گئی اور اب ریاست کے جزیروں پر ہر ہفتے 10 لاکھ مچھر ڈرون اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے چھوڑے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کو عطیہ کی گئیں ساڑھے 3 لاکھ مچھر دانیاں چوری، ڈونر کا تحقیقات کا مطالبہ
ماہرین کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ’اِن کمپیٹیبل انسیکٹ ٹیکنیک’کے ذریعے مچھروں کو ماحول کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اس طریقے کو اپنایا جا سکتا ہے۔