جدید تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ مائیکروپلاسٹک ذرات اب نہ صرف ہماری فضا، پانی اور خوراک میں موجود ہیں بلکہ وہ انسانی جسم کے اندر، مختلف اعضا تک بھی پہنچ چکے ہیں، یہ باریک پلاسٹک ذرات خون، جگر، پھیپھڑوں، گردوں، حتیٰ کہ انسانی دماغ اور مردانہ تولیدی غدود تک میں پائے جارہے ہیں، جو صحت کے لیے کئی سطحوں پر خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی یوم ماحولیات: پلاسٹک آلودگی سے زمین، سمندر اور انسان سب خطرے میں
بی بی سی نے مختلف تحقیقاتی اداروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مائیکروپلاسٹکس 5 ملی میٹر سے چھوٹے پلاسٹک کے ذرات ہوتے ہیں، جب کہ نینو پلاسٹکس اس سے بھی کہیں چھوٹے ہوتے ہیں اور خلیاتی سطح پر جسم کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ ذرات خون اور دماغ کے درمیان موجود قدرتی حفاظتی رکاوٹ (blood-brain barrier) کو بھی عبور کرلیتے ہیں، جو دماغ کو زہریلے مادوں سے بچانے کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔
دل کا دورہ اور فالج
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان ذرات کی موجودگی سے انسانی جسم میں خلیاتی موت، سوزش، آکسیڈیٹیو اسٹریس، ڈی این اے کو نقصان اور جینیاتی تبدیلیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جو کہ بالآخر دل کی بیماریوں، سانس کے مسائل، گردوں کی خرابی اور دماغی امراض جیسے فالج یا یادداشت کی کمزوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن افراد کی گردن کی شریانوں میں مائیکروپلاسٹکس پائے گئے، ان میں دل کے دورے یا فالج کے امکانات تقریباً 4.5 گنا زیادہ تھے۔
دماغ کے خلیات کو نقصان، بانچھ پن اور تولیدی صحت کے مسائل
نیورو ایکسپرٹس کے مطابق 2024 میں انسانی دماغ میں مائیکروپلاسٹکس کی موجودگی 2016 کے مقابلے میں 50 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ ذرات دماغ میں سوزش پیدا کرتے ہیں، جو دماغی خلیات کو متاثر کر سکتی ہے اور الزائمر یا نیورولوجیکل بیماریوں کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ کچھ رپورٹس میں ان ذرات کو مردانہ بانجھ پن اور تولیدی صحت کے مسائل سے بھی جوڑا گیا ہے، کیونکہ ان میں شامل کیمیکل جیسے BPA اور phthalates ہارمونی نظام میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
مائیکروپلاسٹکس انسانی جسم میں کیسے داخل ہوتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق مائیکروپلاسٹکس انسانی جسم میں 3 اہم ذرائع سے داخل ہوتے ہیں، خوراک، پانی اور ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک بالغ انسان سالانہ 78 ہزار سے 2 لاکھ 11 ہزار مائیکروپلاسٹک ذرات جسم میں جذب کر رہا ہے۔ اگرچہ موجودہ تحقیق حتمی نتائج پر نہیں پہنچی، تاہم ابتدائی شواہد کافی حد تک اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ذرات انسانی صحت کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکے ہیں۔
خطرے سے کیسے بچا جائے؟
ماحولیاتی ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ اس خطرے سے بچنے کے لیے گھریلو تیار شدہ کھانے کو ترجیح دی جائے، پلاسٹک کی پیکنگ اور نان اسٹک برتنوں سے گریز کیا جائے، فلٹر شدہ پانی استعمال کیا جائے اور گھروں میں صفائی کے لیے فلٹر ویکیوم یا گیلا کپڑا استعمال کیا جائے تاکہ فضا میں موجود باریک ذرات سے بچا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پلاسٹک انسانی صحت اور قدرتی ماحول کس طرح تباہ کر رہاہے؟
یہ نتائج عالمی سائنسی اداروں اور طبی تحقیقی مراکز کی رپورٹس سے حاصل کیے گئے ہیں جن میں نیچر میڈیسن، ہارورڈ میڈیکل اسکول، اسٹینفورڈ میڈیسن، نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ، اور سائنس فوکس شامل ہیں۔ BBC Future کی ایک حالیہ رپورٹ میں ان تمام تحقیقی حوالوں کو یکجا کرتے ہوئے ایک جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جس میں ماہرین کی آرا اور عالمی تحقیقاتی جائزے شامل کیے گئے ہیں۔