بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی طرف سے احتجاجی مظاہرین پر براہِ راست گولی چلانے کا مبینہ حکم جولائی 2024 کی عوامی بغاوت کے دوران ریاستی اداروں کے ذریعہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال میں بے پناہ اضافے کا سبب بنا۔ روزنامہ ’دی ڈیلی اسٹار‘ کی مہینوں پر محیط تفتیشی رپورٹ میں یہ انکشافات سامنے آئے ہیں۔
تاریخی پس منظر
27 جولائی 2024 کی صبح، شیخ حسینہ ڈھاکہ کے ’نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹراماٹولوجی اینڈ آرتھوپیڈک ریہیبلیٹیشن (NITOR)‘ — جسے عام طور پر’پنگو اسپتال‘ کہا جاتا ہے — میں خطاب کے لیے کھڑی ہوئیں۔ اپنی 8 منٹ کی جذباتی تقریر کے دوران وہ 14 سیکنڈ تک خاموش رہیں۔ ان کے چہرے پر غم کے آثار تھے۔
انہوں نے کہا:
’میں اپنے عوام سے انصاف کی طلبگار ہوں۔ میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جس کی سزا مجھے یوں مل رہی ہے؟ میں نہیں چاہتی کہ کوئی ماں اپنے بچے کو اس طرح کھوئے۔ میں نے اپنے والدین کو کھویا ہے، درد جانتی ہوں۔‘
مگر اس دردناک منظر کے پیچھے ایک خونی حقیقت چھپی تھی، جیسا کہ دی ڈیلی اسٹار کی تفتیشی ٹیم نے انکشافات کیے ہیں۔
خفیہ گفتگو اور مہلک احکامات
18 جولائی 2024 کی رات، شیخ حسینہ نے گنوبھون (وزیرِاعظم کی سرکاری رہائش) سے اپنے بھتیجے اور اُس وقت کے ڈھاکہ ساؤتھ سٹی میئر شیخ فضل نور تاپوش کو فون کیا۔ اس فون کال میں، جس کی ریکارڈنگ سامنے آئی ہے، حسینہ کہتی ہیں:
’میں نے احکامات دے دیے ہیں۔ اب وہ مہلک ہتھیار استعمال کریں گے۔ جہاں بھی وہ انہیں دیکھیں گے، وہ سیدھی گولی ٹھونکیں گے۔‘
اس کے جواب میں شیخ فضل نور تاپوش نے کہا:
’جی، جی۔‘
یہ بھی پڑھیے شیخ حسینہ واجد کے خلاف مقدمے میں سابق آئی جی پولیس وعدہ معاف گواہ بن گئے
اگلے ہی دن، عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری عبیدالقادری نے پریس کانفرنس میں کہا:
’حکومت نے اعلامیہ جاری کیا ہے، یہ یقینی طور پر کرفیو ہے، اور ‘شوٹ ایٹ سائٹ’ کا حکم بھی جاری ہو چکا ہے۔‘
ریکارڈنگ کی تصدیق اور فرانزک تجزیہ
یہ آڈیو ریکارڈنگ نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ سینٹر (NTMC) نے کی تھی اور مارچ 2025 سے سوشل میڈیا پر لیک ہو رہی تھی۔ Tech Global Institute (TGI) نے اس پر فرانزک تجزیہ کیا، جس میں آڈیو کو اصل قرار دیا گیا۔ تجزیے میں آواز کا لہجہ، سانسوں کی رفتار، اور آواز کے نقوش (voiceprints) کو عوامی آڈیوز سے میچ کیا گیا اور اسے حسینہ اور تاپوش کی آواز قرار دیا گیا۔
دی ڈیلی اسٹار نے بھی فون نمبرز کی سرکاری دستاویزات سے تصدیق کی، جن میں وزیراعظم دفتر، وزارت اطلاعات اور دیگر گائیڈز شامل ہیں۔
آسمان سے موت
18 جولائی کو، حکومتی دستاویزات کے مطابق، ہیلی کاپٹرز پہلی بار فضا میں روانہ ہوئے۔ ان میں موجود اہلکاروں کے پاس نہ صرف ہجوم پر قابو پانے والے ہتھیار تھے، بلکہ SMGs، Type-56 چینی رائفلز، اور 7.62x39mm گولیاں بھی موجود تھیں۔
19 اور 20 جولائی کو ڈھاکہ، نارائن گنج، اور دھن منڈی میں شہریوں کو ان کے گھروں کی چھتوں یا بالکونیوں میں گولیاں لگنے کی اطلاعات آئیں، جن کی تصاویر، ویڈیوز اور عینی شاہدین کی گواہیوں کی بنیاد پر ان گولیوں کے فضا سے آنے کا قوی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
شہری ہلاکتیں اور گواہی
ایمان الدین، ایک یونیورسٹی طالب علم، 19 جولائی کو چھت پر کھڑا تھا کہ ایک گولی اس کے سینے میں لگی:
’میں بھاگا تو دیکھا کہ میری خالہ نسیمہ اختر منہ کے بل گری ہوئی تھیں۔ انہیں گولی آنکھ کے نیچے لگی تھی۔‘
اس دوران، دی ڈیلی اسٹار نے دیگر 3 ہلاکتوں کی بھی آزاد تحقیق کی، جن میں تمام گولیاں 7.62mm کی تھیں اور زیادہ تر افراد کو سینے، سر یا پیٹ میں لگی تھیں۔
ماہرین کی رائے
ریٹائرڈ آرمی افسر نے بتایا:
’یہ گولیاں عام طور پر فوجی کارروائیوں میں استعمال ہوتی ہیں، اور ان کا شہریوں پر استعمال ناقابلِ جواز ہے۔‘
زمینی سطح پر قتل
تحقیقات کے مطابق، پولیس، ریب (RAB)، بارڈر گارڈز بنگلہ دیش (BGB)، اور آرمڈ پولیس بٹالین نے احتجاج کے دوران براہِ راست گولیاں استعمال کیں۔ خاص طور پر 19 جولائی کو، جو سب سے خونی دن ثابت ہوا، کم از کم 66 افراد جاں بحق ہوئے۔
ایک خاص واقعہ میں، رمضان نامی نوجوان کو 19 جولائی کو Rampura میں صرف کھڑے ہونے پر گولی مار دی گئی۔ ویڈیو تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کسی خطرے کا باعث نہیں تھا، مگر اسے گلے میں گولی ماری گئی — سامنے سے، جہاں BGB اہلکار موجود تھے۔
اموات کی نوعیت
جن 204 افراد کی اموات کی جانچ کی گئی:
195 افراد کو مہلک گولیاں لگیں۔
یہ بھی پڑھیے حسینہ واجد نے احتجاجی مظاہروں پر گولیاں برسانے کا حکم دیا تھا، لیک آڈیو میں انکشاف، عالمی میڈیا کی تصدیق
113 افراد کو براہ راست گولیاں سر، سینے یا پیٹ میں لگیں۔
یہ تمام زخم فوری یا شدید نوعیت کے تھے۔
قانونی و اخلاقی پہلو
ریٹائرڈ جنرل منیر الزمان نے کہا:
’ایسے مہلک ہتھیاروں کا استعمال صرف تربیت یافتہ اہلکاروں کو کرنا چاہیے، اور سب سے اہم تربیت ‘اخلاقی فیصلہ سازی’ کی ہوتی ہے۔ بغیر اعلیٰ سطحی اجازت کے، فورسز اس طرح کی کارروائیاں نہیں کر سکتیں۔‘
دی ڈیلی اسٹار کو ایسا کوئی تحریری حکم نامہ نہیں ملا، تاہم 18 جولائی کی فون کال خود ایک غیر رسمی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔