قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ وزارت اطلاعات نے سیلاب سے متعلق آگاہی مہم کے لیے حاصل کی گئی 1.95 ارب روپے کی گرانٹ کا بیشتر حصہ دیگر سرکاری منصوبوں پر خرچ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟
آڈٹ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سیلابی مہم کے لیے صرف 16 کروڑ روپے استعمال ہوئے، جبکہ باقی رقم حکومت کے دیگر منصوبوں کی اشتہاری مہمات پر صرف کی گئی، جو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے قواعد کی خلاف ورزی ہے۔
پی اے سی کی رکن فوزیہ راشد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر صرف ایک ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کی میٹنگ ہوئی، کیا ہم اتنے فارغ ہیں؟ اس کے پاس دوسری ڈی اے سی کے لیے بھی وقت نہیں۔
اس پر وزارت اطلاعات کے حکام نے کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نے دوسری ڈی اے سی نہیں کی۔
وزارت اطلاعات کے حکام نے وضاحت دی کہ گرانٹ صرف سیلابی مہم کے لیے نہیں بلکہ پورے سال کے لیے مانگی گئی تھی۔
تاہم کمیٹی کے رکن جنید اکبر نے سوال اٹھایا کہ جس مقصد کے لیے سپلیمنٹری گرانٹ لی گئی، اس پر خرچ کیوں نہیں کی گئی؟ کیا اس میں وزیراعظم کی تصویر نہیں لگ سکتی تھی کہ وہاں خرچ نہ ہوتا؟
یہ بھی پڑھیں:مالی سال 22-2021: بلوچستان میں اربوں روپوں کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
بلال احمد نے سوال اٹھایا کہ ان کو کیسے معلوم ہوا کہ صرف 16 کروڑ روپے سیلاب پر خرچ کرنے ہیں؟
وزارت اطلاعات کے حکام نے جواب دیا کہ ای سی سی کو بھیجی گئی سمری میں مختلف منصوبے شامل تھے۔
پی اے سی ممبران نے چیئرمین کی طرف سے آڈٹ اعتراض ختم کرنے کی مخالفت کی اور اسے دوبارہ ڈی اے سی میں لے جانے کی ہدایت جاری کی۔
شازیہ مری نے پی ٹی وی کی حالت زار پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی ملازمین کو 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔
رکن شاہدہ اختر نے مزید کہا کہ پی ٹی وی میں باہر سے اینکرز اور تجزیہ کار لا کر منہ مانگی رقم دی جاتی ہے۔
کمیٹی نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کی ہے کہ آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جواب دے اور آئندہ اجلاس میں دوسری ڈی اے سی رپورٹ پیش کی جائے۔