صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں، خاص طور پر ٹیرف کے یکطرفہ نفاذ نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کو غیر مؤثر کر کے رکھ دیا ہے۔
ادارے کا تنازعات کے حل کا نظام تقریباً مفلوج ہو چکا ہے کیونکہ اپیلٹ باڈی میں ججوں کی تقرری روک دی گئی ہے، جس کی وجہ سے فیصلے حتمی قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ نے درجنوں ممالک کی برآمدات پر نئی ٹیکس شرحیں نافذ کر دیں
ٹرمپ نے چین، بھارت، میکسیکو، کینیڈا اور دیگر ممالک پر بھاری ٹیرف عائد کیے ہیں جن کی شرح بعض اوقات 25 سے 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
ان اقدامات نے WTO کے اصولوں کو چیلنج کر دیا ہے اور کئی ممالک کی جانب سے اس پر شدید ردعمل آیا ہے۔
WTO کی قیادت نے ان پالیسیوں کو عالمی تجارت کے لیے خطرناک قرار دیا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو دنیا ایک نئی تجارتی جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے، جو عالمی معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ہو گی۔
یورپی یونین اور کینیڈا جیسے ممالک WTO کے ذریعے ان اقدامات کے خلاف شکایات دائر کر چکے ہیں، مگر اپیلٹ نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آ سکا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
بعض یورپی ریاستیں اب WTO کے متبادل تجارتی نظام پر غور کر رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر طاقتور ریاستیں بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرتی رہیں تو کمزور معیشتوں کے لیے عالمی تجارتی نظام مزید غیر محفوظ اور غیر منصفانہ ہو جائے گا۔