پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ دنوں طے پانے والے ممکنہ تجارتی معاہدے نے عالمی سیاست میں نئی حرارت پیدا کر دی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک نئی معاشی راہ کھولتا ہے بلکہ بھارت کے لیے سفارتی دھچکا بھی بن چکا ہے، خاص طور پر اس وقت جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔
ایک طرف پاکستان کے سرکاری حلقے اسے تاریخی کامیابی قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف کچھ مبصرین اس پیش رفت کو امریکا کی عالمی شطرنج کی نئی چال قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد چین، روس اور مسلم دنیا میں توازنِ قوت کو نئی سمت دینا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:
کیا یہ معاہدہ پاکستان کے لیے واقعی ایک موقع ہے؟ یا یہ صرف نئے عالمی نظام (New World Order) کا دباؤ ہے؟
پاکستان کے لیے ممکنہ فوائد
اگر یہ معاہدہ قومی مفاد اور شفاف حکمت عملی کے تحت استعمال کیا جائے، تو پاکستان کئی معاشی و سفارتی فوائد حاصل کر سکتا ہے:
- برآمدات میں نمایاں اضافہ
امریکا دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اگر پاکستان کو ترجیحی تجارتی رسائی (Preferential Market Access) یا ٹیرف فری ایکسپورٹ کی اجازت ملتی ہے، تو پاکستان کی ٹیکسٹائل، سرجیکل، لیدر، فارماسیوٹیکل اور آئی ٹی مصنوعات کی برآمدات میں انقلاب آ سکتا ہے۔
- روزگار اور صنعت کا فروغ
برآمدات بڑھنے سے مقامی صنعتیں متحرک ہوں گی، جس سے لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔
- سرمایہ کاری کے مواقع
یہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکتا ہے۔ زراعت، انرجی، آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں جوائنٹ وینچر بن سکتے ہیں، جن سے ٹیکنالوجی اور گورننس کی بہتری ممکن ہے۔
- زرمبادلہ میں بہتری
ڈالر میں برآمدات بڑھنے سے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے اور روپے کی قدر بہتر ہو سکتی ہے، جس سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔
- عالمی ساکھ اور پوزیشننگ
ایک بڑی عالمی طاقت سے معاشی تعلقات پاکستان کی عالمی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ IMF، FATF اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔
- بھارت پر سفارتی دباؤ
ٹرمپ حکومت کی جانب سے بھارت پر ٹیرف اور پاکستان سے قریب تر رابطے، خطے میں امریکہ کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کی علامت ہیں۔ بھارت، جو امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر سمجھا جاتا رہا، اب دباؤ میں ہے
کیا یہ وقتی دوستی ہے یا دیرپا شراکت داری؟
تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ اپنی وقتی ضرورت کے مطابق استعمال کیا:
افغان جہاد میں فرنٹ لائن اتحادی بنایا؛
نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا؛
اور اب چین کے اثر کو روکنے کے لیے پھر قریب آ رہا ہے۔
یہی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان ایک بار پھر کسی بڑی عالمی سازش کا ایندھن بننے جا رہا ہے؟ کیا یہ معاہدہ صرف سی پیک کو متنازع بنانے اور چین کو محدود کرنے کا حربہ تو نہیں؟
’نیو ورلڈ آرڈر‘ کا خطرناک پہلو
’نیو ورلڈ آرڈر‘ محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ ایک جاری عمل ہے جس میں بڑی طاقتیں اپنے معاشی اور فوجی اثرات سے چھوٹے ممالک کو اپنی صف بندیوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
روس-یوکرین جنگ؛
چین-تائیوان کشیدگی؛
مشرق وسطیٰ میں تبدیلی؛
یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا ایک نئے بلاک سسٹم کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بینالاقوامی تجارتی اور قانونی امور کے ماہر معید الرحمان کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحدی پوزیشن کو استعمال کر کے چین اور روس کے خلاف ایک جغرافیائی دیوار بنائے۔
ان کے مطابق پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ خود کو کسی بلاک میں شامل کرے یا توازن کی پالیسی اختیار کرے۔
پاکستان کو کن نکات پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے؟
- معاہدے کی شفافیت:
خفیہ شقیں پاکستان کو بعد ازاں نقصان پہنچا سکتی ہیں، جیسا کہ ماضی میں کئی معاہدوں کا انجام ہوا۔
- قومی خودمختاری کا تحفظ:
کسی بھی اقتصادی رعایت کے بدلے اگر خارجہ پالیسی، دفاعی خودمختاری یا چین سے تعلقات پر سمجھوتہ کیا گیا تو نقصان دہ ہوگا۔
- متوازن خارجہ پالیسی:
چین، ترکی، سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک سے بھی تعلقات میں توازن رکھنا ضروری ہے۔
- قانونی و ادارہ جاتی اصلاحات:
امریکا جیسے ملک سے تجارتی روابط کے لیے پاکستان کو شفاف کاروباری ماحول، مؤثر عدالتی نظام اور کرپشن فری ادارے بنانے ہوں گے۔
نتیجہ: جیت یا جال؟
یہ معاہدہ اگر پاکستان کے مفاد میں صحیح طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو یہ ایک معاشی اور سفارتی کامیابی ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن اگر یہ معاہدہ نئے عالمی نظام کی ایک سازش کا حصہ نکلا، تو پاکستان پھر ایک بار اپنے فیصلوں کا خمیازہ بھگتے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی امور سے وابستہ شہزاد افضل کے مطابق اب وقت ہے کہ پاکستان ’جذباتی سفارت کاری‘ کی بجائے ’حکمت عملی پر مبنی معاشی آزادی‘ کو اپنائے۔ ہر رعایت، ہر معاہدہ، اور ہر دوستی کو صرف ایک اصول پر پرکھا جائے:
کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہے؟ اگر نہیں — تو تاخیر سے بہتر ہے انکار۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔