ماسکو کے طاقت ور حلقوں میں اہم مقام رکھنے والے روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر چھا گئے ہیں۔
2008 سے 2012 تک صدر رہنے والے اور اس وقت روس کی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ میدویدیف نے حالیہ دنوں میں ایسے بیانات دیے ہیں جنہوں نے امریکا کو سخت اقدامات پر مجبور کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کی ایٹمی آبدوز مشرق وسطیٰ میں تعینات، اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی جنگ کا عندیہ دے دیا
روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق جب دمتری میدویدیف نے ایران کو جوہری ہتھیار دینے کی بات کی تو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری طور پر 2 جوہری آبدوزیں ممکنہ خطروں کے مقابلے کے لیے متحرک کر دیں۔
ٹرمپ نے میدویدیف پر ’لاپروائی سے جوہری حملے کی دھمکیاں دینے‘ کا الزام عائد کیا۔
میدویدیف، جو کبھی یورپ اور امریکا سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے، اب یوکرین جنگ کے بعد کرملن کے سخت گیر حلقوں کا نمایاں چہرہ بن کر ابھرے ہیں۔
وہ مغرب کو ’کمینے اور اخلاقی گراوٹ کے شکار‘ قرار دے چکے ہیں، جبکہ یوکرین کو روس کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
ماضی کا نرم مزاج صدر، آج کا جوہری جارح؟
ایک زمانہ تھا جب دمتری میدویدیف کو روس کے اندر تبدیلی اور اصلاحات کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔
2010 میں انہوں نے امریکی صدر اوباما کے ساتھ جوہری ہتھیاروں میں کمی کے معاہدے پر دستخط کیے، اور روس کو عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کا حصہ بنایا۔
لیکن ان کی صدارت کے دوران ہی 2008 میں روس نے جارجیا پر حملہ کیا، جس سے مغرب کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے۔
اگرچہ میدویدیف نے اس فیصلے کی ذمہ داری خود لی، لیکن یہ بات واضح تھی کہ اصل قوت صدر بننے کے بعد بھی ولادیمیر پیوٹن ہی کے ہاتھ میں تھی۔
پیوٹن کے سائے میں سیاسی زندگی
میدویدیف کا سیاسی سفر پیوٹن کے سائے میں پروان چڑھا۔ لینن گراڈ میں پیدا ہونے والے میدویدیف کو پیوٹن 1999 میں ماسکو لائے، جہاں وہ جلد ہی گیس کمپنی گازپروم کے چیئرمین اور پھر نائب وزیراعظم بنے۔
یہ بھی پڑھیں:روس کا نئی جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز سے میزائل ’بلاوا‘ کا کامیاب تجربہ
صدر بننے کے بعد انہوں نے پوتن کو وزیراعظم مقرر کیا، جس سے ان کا تابعدارانہ کردار مزید واضح ہو گیا۔
2012 میں دوبارہ صدارت پیوٹن کو سونپ کر میدویدیف وزیراعظم بن گئے اور بعد ازاں ایک مشاورتی منصب پر فائز ہوئے۔
ان پر 2017 میں کرپشن کے سنگین الزامات بھی لگے، جو اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی نے عائد کیے تھے۔
سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز بیانات
یوکرین جنگ کے بعد میدویدیف نے سوشل میڈیا پر مغرب اور امریکا کے خلاف نہایت سخت زبان اختیار کی ہے، جن میں جوہری حملوں کی دھمکیاں، اور تہران کو جوہری ہتھیار دینے جیسے بیانات شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں ان کے ان بیانات کو امریکی حکام سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
کیا میدویدیف محض ایک آواز ہیں یا حقیقی خطرہ؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ میدویدیف کے بیانات ممکنہ طور پر داخلی سیاست میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کی کوشش ہیں، لیکن ان کا اثر عالمی سطح پر ضرور محسوس کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب روس اور مغرب کے تعلقات نازک موڑ پر ہیں۔
یہ سوال اب شدت سے ابھرا ہے: کیا میدویدیف واقعی روسی قیادت میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں یا یہ سب محض سیاسی بقا کی جنگ ہے؟