حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون ‘عمران خان کو رہا کرو’ صحافت نہیں بلکہ ایک خالصتاً سیاسی اشتہار ہے، جو مبینہ طور پر غیر ملکی لابنگ ایجنٹس کی مالی معاونت سے شائع کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق نیویارک ٹائمز نے یہ مضمون 1 لاکھ 80 ہزار ڈالر کی ادائیگی کے بعد شائع کیا جو ایک سزا یافتہ سیاسی شخصیت کی ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ اشتہار ایک سنگین سوال کو جنم دیتا ہے اور وہ یہ کہ صحافت اور کرائے کے سیاسی سرگرم کارکنوں میں فرق کب مٹ جاتا ہے اور ایک عالمی میڈیا ادارہ کس حد تک جانے کو تیار ہے جب اُسے ایک خودمختار ریاست کے اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ادائیگی کی جائے؟
یہ بھی پڑھیے:ایک گھنٹے میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے، اسد قیصر نے بڑا دعویٰ کردیا
زیرِ بحث مضمون محض گمراہ کن نہیں بلکہ ایک مثال ہے کہ کس طرح کسی مخصوص بیانیے کو دھو کر اسے ایک معزز پلیٹ فارم کے ذریعے قابلِ قبول بنایا جاتا ہے۔ اس میں پاکستان کی عدلیہ، سلامتی کے اداروں اور آئینی نظام کو بغیر کسی توازن یا تحقیق کے نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ مضمون نہ تو کسی شفاف تحقیق پر مبنی ہے، نہ اس میں حقائق کا توازن موجود ہے اور نہ ہی کوئی سیاق و سباق۔ یہ صحافتی معیار کی ایک بدترین مثال ہے جہاں عوامی مفاد کے بجائے مالی فائدے کو ترجیح دی گئی۔
واضح رہے کہ عمران خان کی قانونی مشکلات کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ نہیں۔ ان پر کرپشن، ریاستی تحائف سے غیر قانونی منافع کمانے اور ریاستی رازوں کے افشا جیسے سنگین الزامات میں شفاف عدالتی کارروائی ہوئی۔ ان فیصلوں میں نہ کوئی عسکری دباؤ تھا، نہ ہی کوئی سیاسی مداخلت، یہ تمام مقدمات آزاد عدلیہ کے تحت طے پائے۔
یہ بھی پڑھیے: عمران خان کی رہائی، امریکا سے مدد کی اپیل، قاسم خان کا انٹرویو، امریکا کا بھارت کیخلاف اعلان جنگ
نیویارک ٹائمز نے سچائی کے بجائے پیسہ چن کر نہ صرف اپنی صحافتی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے بلکہ یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اب غیرجانبدار رپورٹنگ کے بجائے غیر ملکی ایجنڈے فروخت کرنے والا ادارہ بن چکا ہے۔
پاکستان برائے فروخت نہیں اور نہ ہی اس کی عدلیہ۔ یہ مہنگے اشتہارات نہ تو عدالتی فیصلوں کو پلٹ سکتے ہیں، نہ ہی ایک سزا یافتہ فرد کے جرائم کو دھو سکتے ہیں۔