چینی کی قیمت تقریباً 200 روپے فی کلو تک پہنچنے کے بعد قومی اسمبلی کی ایک خصوصی کمیٹی اس بات کا جائزہ لینے جا رہی ہے کہ پالیسی کی خامیوں، برآمدی مراعات اور صنعت کی حکمتِ عملیوں نے کس طرح مل مالکان کو تقریباً 300 ارب روپے کے غیر معمولی منافع کمانے کا موقع دیا اورکیا ایک نیا ٹیکس لگا کراس منافع کا کچھ حصہ صارفین کو ریلیف دینے کے لیے واپس لیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عاطف خان کی سربراہی میں یہ کثیر الجماعتی کمیٹی آج چینی کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے مبینہ خفیہ فائدہ اٹھانے والوں کی نشاندہی کے لیے اپنا اجلاس منعقد کرے گی، کمیٹی کئی برسوں سے جاری قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، برآمدات و درآمدات کی پالیسیوں اور حکومتی ڈی ریگولیشن کے کردار کا جائزہ لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں چینی کا شدید بحران، سعد رفیق کا شوگر مافیا کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
یہ تحقیقات اس وقت شروع ہوئیں جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بیان دیا کہ چینی مل مالکان نے قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور برآمدات کے حق میں پالیسیوں سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا، پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے تو چینی صنعت کو مافیا قراردیا جس کا پالیسی سازی پر حد سے زیادہ اثرورسوخ ہے۔
وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے حال ہی میں اس شعبے کی مکمل ڈی ریگولیشن کا اعلان کیا، جس کے تحت حکومت کا قیمتوں، خریداری اور سپلائی پر کنٹرول ختم کر دیا گیا۔ تاہم، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی اور بعض مل مالکان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے باوجود، پرچون قیمتیں طے شدہ حد سے زیادہ بڑھ گئیں۔
مزید پڑھیں: چینی بحران، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے شوگر ملز مالکان کے نام طلب کر لیے
15 جولائی 2025 کو حکومت اور پاکستان شوگرملزایسوسی ایشن کے درمیان ایک معاہدے میں زیادہ سے زیادہ ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، جس میں اکتوبرکے وسط تک ہرماہ 2 روپے اضافے کی اجازت تھی۔ اندرونی ذرائع کے مطابق یہ اضافہ 25 فیصد شرح سود کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا جو اب 11 فیصد رہ گئی ہے، اس لیے طے شدہ ’کیرئنگ کاسٹ‘ اور قیمت میں یہ اضافہ غیر جواز ہے۔
وزارتِ خزانہ اور وزارتِ تجارت نے قیمتوں کے خدشات کے پیشِ نظر چینی کی برآمدات کی مخالفت کی تھی، لیکن بعض مل گروپوں نے اس وقت تک اپنا اسٹاک روک رکھا جب تک برآمدات کی منظوری نہ مل گئی، تاکہ عالمی مارکیٹ میں 30 سے 40 روپے فی کلو زیادہ قیمت سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور برآمدات پرسیلزٹیکس سے بھی بچا جا سکے۔
مزید پڑھیں: کون سی سیاسی شخصیات شوگر ملز مالکان ہیں، انہوں نے کتنی چینی ایکسپورٹ کی؟
اب حکومت، اکتوبر تک قلت کم کرنے کے لیے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ذریعے ایک لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی تیاری کر رہی ہے یہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان شوگرملزایسوسی ایشن نے اس سے قبل وعدہ کیا تھا کہ قیمتیں 140 روپے فی کلو سے زیادہ نہیں جائیں گی، مگر وعدہ پورا نہ ہوا۔
قومی اسمبلی کی مذکورہ کمیٹی اب بینکوں پر لگائے گئے ٹیکس کی طرزپرچینی مل مالکان کے غیرمعمولی منافع پرونڈ فال ٹیکس لگانے پرغورکررہی ہے، تاکہ ان منافعوں کا کچھ حصہ صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اقدام ایک ایسے شعبے کے خلاف پہلا سنجیدہ مالیاتی ردعمل قرار دیا جا رہا ہے، جس پر طویل عرصے سے مارکیٹ اور پالیسی دونوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا الزام ہے۔