امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے منگل کے روز کہا کہ بھارت تجارتی مذاکرات میں سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، اور اسے ’کچھ حد تک ضدی‘ (recalcitrant) قرار دیا۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کی وجہ بھارت کی روس سے تیل کی خریداری کو قرار دیا گیا۔
مذاکرات کی صورتحال
اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ بعض ممالک کے ساتھ بات چیت جاری ہے، جن میں خاص طور پر سوئٹزرلینڈ اور بھارت شامل ہیں، اور امید ظاہر کی کہ اکتوبر تک ٹیرف کے حوالے سے مذاکرات مکمل ہوجائیں گے۔
انہوں نے فاکس بزنس نیٹ ورک کے پروگرام کڈلو میں کہا:
’بڑے تجارتی معاہدے ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ سوئٹزرلینڈ سے اب بھی بات چیت میں ہے؛ بھارت کچھ حد تک ضدی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم تمام بڑے ممالک کے ساتھ بڑے نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ-مودی 35 منٹ کی کال جس نے بھارت امریکا تعلقات میں دراڑ ڈال دی
اکتوبر میں معاہدے کے امکان کے بارے میں سوال پر بیسنٹ نے کہا:
’یہ ایک امید ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اچھی پوزیشن میں ہیں۔‘
50 فیصد ٹیرف کا خطرہ
6 اگست کو صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا، جس کے تحت بھارتی مصنوعات پر اضافی 25 فیصد ڈیوٹی لگائی گئی، یوں مجموعی ٹیرف 50 فیصد تک پہنچ گیا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ اقدام ’قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے خدشات‘ کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے، کیونکہ بھارت کی روسی تیل کی درآمدات امریکا کے لیے ’ غیر معمولی خطرہ‘ ہیں۔
بھارت کا ردعمل
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اس فیصلے کو ’غیر منصفانہ، غیر معقول اور بلا جواز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی اپنے قومی مفاد کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے روسی تیل خریدا تو بھارت، چین، برازیل کی معیشت تباہ کر دیں گے، امریکا کی وارننگ
یہ امریکی اقدام 7 اگست سے نافذ کیے گئے بھارتی مصنوعات پر 25 فیصد جوابی ٹیرف کے بعد سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ کا موقف
صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات اس وقت تک شروع نہیں ہوں گے جب تک ٹیرف کا تنازع حل نہیں ہوتا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 50 فیصد ٹیرف کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے، تو انہوں نے جواب دیا:
’نہیں، جب تک یہ حل نہیں ہوتا۔‘
واضح رہے کہ فی الحال بھارت پر 25 فیصد ٹرمپ ٹیرف لاگو ہے اور اضافی 25 فیصد ٹرمپ ٹیرف 27 اگست سے نافذ ہوگا۔














