امریکی ریاست ’نیوجرسی‘ میں اچانک نا معلوم سمت سے آنے والی ’شہابی چٹان‘ سے ایک گھر میں بڑا سوراخ ہو گیا۔ امریکی تحقیقاتی ادارے اس ’چٹان‘ کی سمت کا تعین کرنے کیلئے تحقیق کر رہے ہیں ۔ اس چٹان کے بارے گمان کیا جا رہا ہے کہ یہ آسمان سے گرنے والا شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا ہے۔
ہوپ ویل ٹاؤن شپ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے واقعےکی فوری تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لمبوتری شکل کی شہابی چٹان ٹرینٹن سے قریباً دس میل دور واقع این جے ہوپ ویل ٹاؤن شپ میں ایک شخص کے گھر سے زور دار دھماکے سے ٹکرائی ، جس کے بارے میں گمان ہے کہ یہ چٹان آسمان سے گری اورمقامی شخص کے گھر میں ایک بڑا شگاف کرتی ہوئی گھر کے فرش سے جا ٹکرائی۔
پولیس نے مزید بتایا کہ اس ’شہابی چٹان‘ نے رکنے سے قبل پہلے مکان کی چھت میں شگاف کیا، پھرلکڑی کے فرش کو تباہ کیا تاہم اس واقعے سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔
چٹان کی شناخت کیلئے تحقیقات جا ری ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا واقعی یہ چٹان خلا سے زمین پر گری ہے۔ سائنسدان اس کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے تا ہم اس وقت تک چٹان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا بیرونی حصہ جلا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی پیمائش تقریبا چار اور چھ انچ بتائی گئی ہے۔
دوسری جانب پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس چٹان کا تعلق ’ایٹا ایکواریڈ میٹیورشاور‘ کی چوٹی سے بھی ہو سکتا ہے تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی خلائی چٹانیں عام طور پر زمین کے ماحول میں داخل ہونے پر جل جاتی ہیں اور ادھر ادھر بکھر جاتی ہیں۔ ماہرین زمین پر پہنچنے والی ان چٹانوں کو’میٹورائٹس‘ کا نام دیتےہیں۔
عام خیال ہے کہ ’میٹورائٹس‘ زمین پر پہنچنے کے بعد اتنے گرم نہیں ہوتے کہ یہ آگ بھڑکا سکیں۔
اگرچہ زمین پر شہاب ثاقب گرنے کے واقعات انتہائی کم وقوع پذیر ہوئے ہیں لیکن ماضی میں ان کے شوائد ضرور ملتے ہیں۔
3اکتوبر 2021 کو برٹش کولمبیا، کینیڈا میں ایک سافٹ بال کے سائز کا شہاب ثاقب ایک گھر سے ٹکرا گیا تھا۔
امریکی تاریخ میں شہاب ثاقب گرنے کے مشہورحادثوں میں سب سے بڑا حادثہ 9 اکتوبر 1992 کو پیش آیا جب 26 پاؤنڈ وزنی شہابی چٹان ایک کار سے ٹکرا گئی۔
نیویارک کے شمال میں پیکسکل کے علاقے یہ کار انتہائی مقبول ہوئی جسے بعد میں فرانس کے نیشنل میوزیم سمیت متعدد عجائب گھروں میں نمائش کے طور پر رکھا گیا۔