26ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی درخواستوں کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بنچ کے سامنے مقرر کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے 9 ججوں کی رائے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے خطوط اور ججز کمیٹیوں کے اجلاسوں کے منٹس پہلی بار منظر عام پر آگئے۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی: 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور ایس آئی ایف سی تحلیل کرنے کا مطالبہ
جاری تفصیلات کے مطابق 31 اکتوبر 2024 کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ کیس کو 4 نومبر کو فل کورٹ کے سامنے سنا جائے۔
تاہم چیف جسٹس پاکستان نے آرٹیکل 191A کے تحت مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر درخواستیں آئینی بنچ ہی سن سکتا ہے اور اس حوالے سے فیصلہ آئینی کمیٹی کا دائرہ اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے 13 ججوں سے رائے لی جن میں سے 9 نے مؤقف اپنایا کہ معاملہ فل کورٹ کے بجائے آئینی بنچ کے سامنے مقرر ہونا چاہیے۔

یہ حقائق دونوں ججز کو آگاہ کرنے کے بعد چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس نہ بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ ججز کے درمیان روابط متاثر نہ ہوں اور عدالت عوامی تنقید کا نشانہ نہ بنے۔
چیف جسٹس کے مطابق، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے خطوط اور ان کے جوابات سربمہر لفافوں میں جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹری کو محفوظ رکھنے کے لیے بھیج دیے گئے، اور 5 نومبر 2024 کے اجلاس میں آئینی بنچ کی تشکیل کے لیے نامزدگی کی درخواست دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:26ویں آئینی ترمیم کو نقصان پہنچا تو سود کے خاتمے کی شق بھی متاثر ہوگی، مولانا فضل الرحمان
مزید جاری کردہ منٹس میں 26 نومبر 2024 کے ججز ریگولر کمیٹی اجلاس میں دو اراکین کی اکثریت سے فیصلہ کیا گیا کہ کیس کو ججز آئینی کمیٹی کو فکس کیا جائے۔

ٹیکس مقدمے سے متعلق 17 جنوری 2025 کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان اور رجسٹرار سپریم کورٹ شریک ہوئے، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے عدم دستیابی سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی رائے پہلے ہی دے دی تھی۔
اس اجلاس میں بھی اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ ٹیکس کیس آئینی بنچ میں منتقل کیا جائے۔














