پولیس نے پی ٹی آئی کی گرفتار اعلیٰ قیادت کے تینوں رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کو جی بی ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان کو بھی سپریم کورٹ جاتے ہوئے سرینا چوک سے گرفتار کیا۔ا
پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گزشتہ روز نقص امن کے خطرات کی وجہ سے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا تھا۔ اسد عمر کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور فواد چوہدری کو سپریم کورٹ کے احاطے سے جب کہ شاہ محمود قریشی کو جی بی ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس کی جانب سے گرفتار تینوں رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد وزیر اعلٰی گلگت بلتستان خالد خورشید کو دارالحکومت کے گلگت بلتستان ہاؤس میں نظر بند کرتے ہوئے رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری جی بی ہاؤس کے باہر تعینات کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے علی الصبح وزیر اعلٰی گلگت بلتستان کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع گلگت بلتستان ہاؤس سے گرفتار کرنے کی کوشش کی، تاہم بعد میں ان کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں جی بی ہاؤس میں نظر بند کردیا گیا ہے۔
اس موقع پر گلگت بلتستان ہاؤس میں موجود تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری نے اپنے ساتھیوں سمیت رضاکارانہ گرفتاری دی ہے۔ اس سے قبل شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، مسرت اقبال چیمہ اور ملیکہ بخاری سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی اسلام آباد سے گرفتار کیا جاچکا ہے۔ دارالحکومت سمیت ملک کے بیشتر بڑے شہروں میں حکومت نے امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے فوج طلب کرلی ہے۔
اس سے قبل سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے مرکزی سینئر نائب صدر قاسم سوری کے خلاف قتل اور دہشتگردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مبین خلجی، ڈاکٹر منیر بلوچ، خادم حسین وردک اور باری بڑیچ سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق قاسم سوری سمیت مبین خلجی، ڈاکٹر منیر بلوچ، خادم حسین وردک، باری بڑیچ اور دیگر رہنماؤں کے خلاف قتل، اقدام قتل، دہشتگردی، سرکاری اسلحہ چھینے، بغاوت، کار سرکار میں مداخلت سمیت 18 دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کوئٹہ کے بجلی روڈ تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کی گئی۔ ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے قاسم سوری اور مبین خلجی کی ہدایات پر ائیر پورٹ روڈ پر مظاہرہ کر تے ہوئے سڑک بلاک کرکے جلاؤ گھیراؤ کیا۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین کو اکساتے ہوئے عسکری چیک پوسٹ پر حملے کی کوشش کی گئی۔ پولیس کی جانب سے روکنے پر مظاہرین نے براہ راست فائرنگ شروع کردی جس میں عمر عزیز نامی شخص جاں بحق ہوا اور 7 افراد زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف قتل اور دہشتگردی کا مقدمہ درج
تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران پنجاب میں سرکاری و نجی اداروں پر حملوں، توڑ پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1650 سے زائد شرپسند عناصر اب تک گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق شرپسند عناصر کی پرتشدد کاروائیوں میں پنجاب بھر میں 150 سے زائد افسران واہلکار شدید زخمی ہوئے، جب کہ پنجاب پولیس کے زیر استعمال 70 گاڑیاں یا تو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنیں یا پھر نذر آتش کردی گئیں۔
آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق تمام شرپسند عناصر کو ٹریس کرکے گرفتار کیا جارہا ہے۔ ’سرکاری و نجی املاک، پولیس ٹیموں پر حملوں ، پر تشدد کاروائیوں میں ملوث شرپسند کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘
پولیس ذرائع کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ کے روز تحریک انصاف کے 115 کارکنان کو گرفتار کیا گیا جن میں 20 خواتین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب راولپنڈی سے اب تک پی ٹی آئی کے 190 کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اسلام آباد میں پولیس نے رات گئے کارروائی کرتے ہوئے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے مزید 80 افراد گرفتار کرلیے ہیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق، ان گرفتار افراد میں ترنول ریلوے اسٹیشن کو آگ لگانے ، فائرنگ کرنے اور پٹڑی اکھاڑنے والے ملزمان بھی شامل ہیں۔ اس قبل جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 108 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد کے ہسپتال پمز اور پولی کلینک میں 25 زخمی پولیس اہلکار علاج کی غرض سے لائے جاچکے ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ دوسرے روز بدھ کو بھی جاری رہا اور کئی مقامات پر حالات کشیدہ ہوئے۔ پشاور میں بدھ کے روز 3 افراد ہلاک ہوئے۔
اسلام آباد میں بھی کئی مقامات پر حالات کشیدہ رہے۔ وزارت داخلہ کی سفارش پر کابینہ نےاسلام آباد سمیت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں فوج طلب کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعد فوجی دستے دارالحکومت میں پہنچ گئے ہیں۔
شاہ محمود اور فواد چوہدری کی اسلام آباد میں گرفتاری
رات گئے موصول اطلاعات کے مطابق وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کو رات گئے گلگت بلتستان ہاؤس سے 3 ایم پی او تحت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
گرفتاری سے قبل اپنے ویڈیو بیان میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر انہیں مزید مہلت نہیں ملتی تو یہ پیغام دے کر جانا چاہتے ہیں کہ حقیقی آزادی کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
’عمران خان نے مجھے ذمہ داری سونپی تھی، اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کررہا تھا اور کی ہے۔۔۔ یہ تحریک حقیقی آزادی کی تحریک ہے، ہم سب نے مل کر اس میں حصہ ڈالا ہے۔۔۔ عمران خان کی آزادی تک آپ اپنی جستجو میں گامزن رہیں۔‘
مزید پڑھیں
اس سے قبل فواد چوہدری کو رات ساڑھے 11 بجے کے قریب سپریم کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی رہنما کو 16 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا ہے۔ فواد چوہدری گرفتاری سے بچنے کے لیے تقریباً 12 گھنٹے سپریم کورٹ کی عمارت میں موجود رہے۔
گرفتاری سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ہائی کورٹ نے منگل کو ان کی ضمانت منظور کی تھی۔ ’پاکستان کی تاریخ میں ایک وکیل کی گرفتاری کا پہلا موقع ہو گا۔ پولیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔‘
اسلام آباد پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کی تصدیق
اسلام آباد پولیس نے شاہ محمود قریشی ، اسد عمر، فواد چوہدری، جمشید اقبال چیمہ، فلک ناز چترالی، مسرت جمشید چیمہ اور ملیکہ بخاری کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹرہینڈل سے پوسٹ کیے گئے پیغام میں بتایا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد مظاہروں پر اکسانے والوں کے خلاف نقص امن کے خطرہ کے تحت گرفتاریاں تمام قانونی تقاضوں کے مکمل کرکے عمل میں لائی گئی ہیں۔
’مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ عوام مِیں افواہ اور اشتعال پھیلانے سے گریز کریں۔۔۔ تمام شہریوں سے گذارش ہے کہ قانون کا احترام کریں۔ اسلام آباد میں دفعہ 245 نافذ ہے۔
منصوبہ بندی کے تحت جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد مظاہروں پر اکسانے والوں کے خلاف نقص امن کے خطرہ کے تحت گرفتاریاں ۔
اسلام آباد پولیس نے شاہ محمود قریشی ، اسد عمر،فواد چوہدری، جمشید اقبال چیمہ، فلک ناز چترالی، مسرت جمشید چیمہ اور ملیکہ بخاری کو گرفتار کرلیا ۔
تمام گرفتاریاں قانونی…
— Islamabad Police (@ICT_Police) May 11, 2023
اسلام آباد پولیس کے مطابق دارالحکومت میں آمدورفت کے تمام راستے کھلے ہیں اور ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔
’کسی بھی قسم کی غیر قانونی عمل کرنے والوں کے خلاف پولیس، ایف سی، رینجرز اور پاک افواج کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں اور قانون کا احترام کریں۔‘
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں گزشتہ منگل کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک گیر احتجاج کے دوران حساس تنصیبات پر حملے بھی کیے۔
جس کی پاداش میں ملک بھر سے مرکزی رہنماؤں سمیت ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کی گرفتاری سے قبل اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی رہنما اسد عمر، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اور علی زیدی بھی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں بھی گرفتاریاں
پرتشدد مظاہرین کے خلاف خیبرپختونخوا میں بھی آپریشن جاری ہے جہاں پولیس نے اب تک 250 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ صوبائی پولیس ترجمان کے مطابق بیشتر گرفتاریاں مردان اور مالاکنڈ میں ہوئی ہیں، جبکہ پشاور میں 84 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ، عمران خان کی گرفتاری کیخلاف ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی۔
سپریم کورٹ میں درخواست ایڈووکیٹ محبوب اسلم گجر کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور رہنماؤں کی گرفتاری واضح طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور سیاسی انتقام ہے۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ حکومت کا رویہ بنیادی حقوق اور آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 اے کی خلاف ورزی ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کی مداخلت ناگزیر ہے۔
درخواست گزار محبوب اسلم نے سپریم کورٹ سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ مداخلت کرتے ہویے عمران خان کی حفاظت کو یقینی بنانے کا حکم دے اور عمران خان کو جلد رہا کیا جائے۔ عمران خان کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا عدالت اسکی تحقیقات کروائے۔
سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ محبوب اسلم کی جانب سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت دفاع اور نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز بھی عمران خان کی رہائی کے لیے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔