اسرائیلی مؤرخ یووال نوح ہراری نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے، وہ یہودی مذہب کے لیے ’روحانی تباہی‘ ثابت ہوسکتا ہے جو 2 ہزار سالہ یہودی فکر، ثقافت اور وجود کو ہی ختم کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ایک ہزار سے زائد ربیوں کا اسرائیل پر بھوک کو ہتھیار بنانے کا الزام، غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ
’ان ہولی پوڈکاسٹ‘ میں گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے موجودہ راستے کو جاری رکھا تو بدترین صورت حال میں غزہ اور مغربی کنارے میں نسلی تطہیر کی مہم چل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو بے دخل کردیا جائے گا، ساتھ ہی اسرائیلی جمہوریت کا خاتمہ اور یہودی بالادستی پر مبنی ایک ’گریٹر اسرائیل‘ کا قیام بھی ہوسکتا ہے۔
"What is happening right now in Israel could basically, I think, destroy, void 2000 years of Jewish thinking and culture and existence."
Israeli historian Yuval Noah Harari warned that if Israel continues on its present path such a trajectory would bring a “spiritual… pic.twitter.com/taH4OIMHPt
— Middle East Eye (@MiddleEastEye) August 17, 2025
انہوں نے کہا کہ اس عمل کے نتیجے میں ایک ایسا اسرائیل ابھرے گا جو طاقت اورتشدد کی پرستش پر کھڑا ہوگا، حالانکہ یہ وہ اقدار ہیں جو گزشتہ 2 ہزار برسوں سے یہودیت کے بالکل برعکس رہی ہیں۔ ’یہ روحانی تباہی ہوگی، کیونکہ یہ وہ نیا یہودیت ہوگا جس کا سامنا دنیا بھر کے یہودیوں کو کرنا پڑے گا۔‘
مزید پڑھیں:مظاہرین نے اسرائیلی پارلیمنٹ پر دھاوا کیوں بولا؟
یووال ہراری نے اس لمحے کو یہودی تاریخ کے سب سے بڑے موڑ سے تشبیہ دیتے ہوئے اسے 70 عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں دوسرے ہیکل کی تباہی کے بعد کا سب سے سنگین لمحہ قرار دیا، ان کے مطابق یہودیت نے رومی فتح سے لے کر ہولوکاسٹ تک بڑے سانحات کا مقابلہ کیا، لیکن اس طرح کی روحانی آفت کا سامنا کبھی نہیں کیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ منظرنامہ حقیقت اختیار کرگیا تو دنیا کے یہودی، خواہ وہ نیویارک میں ہوں یا لندن میں، یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ اصل یہودیت نہیں ہے، بلکہ انہیں ایک ایسی شناخت کے ساتھ جینا پڑے گا جس کی بنیاد طاقت اور تشدد پرہوگی۔