خیبر پختونخوا حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ اضلاع کے لیے 800 ملین روپے جاری کرکے ریسکیو آپریشن میں تیزی لانے کا دعویٰ کیا ہے، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں اور ان کی حکومت متاثرین کا مکمل ازالہ کرے گی۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کا دورہ کیا، متعلقہ حکام سے بریفنگ لی اور متاثرین میں چیکس بھی تقسیم کیے، انہوں نے وعدہ کیا کہ متاثرین کی بحالی و آبادکاری حکومت کی ذمہ داری ہے۔
’صوبہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، کسی مدد کی ضرورت نہیں‘
علی امین گنڈاپور نے متاثرہ اضلاع میں ریسکیو آپریشن کا بھی جائزہ لیا، ان کی ہدایت پر پی ڈی ایم اے نے ہنگامی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ریسکیو آپریشن اور بحالی کے لیے 800 ملین روپے جاری کیے، سوات میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین نے سیلاب متاثرین سے وعدہ کیا کہ صوبائی حکومت ان کے نقصانات کا مکمل ازالہ کرے گی۔
’ہماری حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح نہیں جس کے پاس تنخواہوں کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے، ہم نے منصوبہ بندی کی، انڈومنٹ فنڈ قائم کیا اوراب ہمارے پاس اس میں 190 ارب روپے ہیں جبکہ ہر ماہ 8 کروڑ روپے مزید شامل ہوتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں:شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد خیبر پختونخوا کے 8 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
وزیر اعلیٰ علی امین نے بتایا کہ وفاق اور چاروں صوبوں نے ان سے رابطہ کیا ہے۔ ’میں چاروں صوبوں کا مشکور ہوں، یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی لیکن انھوں نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ متاثرین کی مدد کرے، لیکن صوبہ بھیک نہیں مانگے گا اور اپنی ذمہ داری خود پوری کرے گا، تاہم وزیراعلیٰ کے بیان پر تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ مشکل وقت میں مل جل کر کام کرنے کے بجائے سیاست کر رہے ہیں۔
کیا صوبائی حکومت وفاق کے بغیر سیلابی صورتِ حال سے نمٹ سکتی ہے؟
خیبر پختونخوا کے شمالی اضلاع بونیر، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، مانسہرہ، بٹگرام، کوہستان اوردیگرمیں حالات انتہائی خراب ہیں، بونیراورشانگلہ میں ابھی تک ریسکیو آپریشن مکمل نہیں ہوا ہے، مقامی افراد، ضلعی انتظامیہ اور صحافیوں کے مطابق بونیر میں بڑی تعداد میں لوگ اب بھی لاپتا ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔
گزشتہ دو روز سے بونیر میں سیلاب کی کوریج میں مصروف پشاور کے صحافی عارف حیات کا کہنا ہے کہ بونیر میں حالات انتہائی خراب ہیں اور ریسکیو آپریشن کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق سرکاری مشینری مرکزی سڑکوں تک محدود نظر آ رہی ہے، جبکہ متاثرہ دیہات میں فلاحی اداروں کے رضاکار مقامی لوگوں کی مدد سے ریسکیو کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:سانحہ سوات پر اجلاس، سیلاب کے دوران لائف جیکٹس اور رسیوں کی ترسیل کے لیے ڈرونز خریدنے کا فیصلہ
عارف حیات نے امدادی سرگرمیوں میں مزید تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ’مقامی لوگ کہہ رہے ہیں کہ 100 سے زائد افراد اب بھی لاپتا ہیں اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت ملبے میں تلاش کر رہے ہیں، جو کچھ حکومت کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے، حالات اس کے برعکس ہیں، ریسکیو اہلکار کم ہیں اور مشینری کی بھی کمی ہے۔‘
عارف حیات کا کہنا تھا کہ نقصانات کا ازالہ بعد کی بات ہے، جو سروے اور رپورٹ کے بعد ہی شروع ہو سکے گا، فی الحال ملبے سے لاشیں نکالنا سب سے اہم ہے، انہوں نے صوبائی حکومت کے ریسکیو اقدامات کو ناکافی قرار دیا۔ ’لوگ جنازے کے بعد دوبارہ ملبے میں تلاش شروع کر دیتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔‘
سیلاب سے کتنا نقصان ہوا ہے؟
خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق سیلابی نقصانات کا سروے جاری ہے، تاہم پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق 15 اگست سے شدید بارش اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں شمالی اضلاع میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ صوبے میں بارشوں اور فلش فلڈز کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 325 افراد جاں بحق اور 156 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جاں بحق افراد میں 274 مرد، 30 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں، جبکہ زخمیوں میں 123 مرد، 23 خواتین اور10 بچے شامل ہیں، صرف بونیرمیں جاں بحق افراد کی تعداد 217 ہو گئی ہے، رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اب تک صوبے میں 340 سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا ہے، تاہم حتمی رپورٹ آنا باقی ہے۔
مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا: سیلاب متاثرین کے لیے معاوضہ دگنا، ادائیگی کے لیے 85 کروڑ روپے جاری
بونیر میں تعینات ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ابھی تک ریسکیو آپریشن مکمل نہیں ہوا، اس لیے نقصانات کی رپورٹ تیار کرنے پر کام باقی ہے، ان کے مطابق ابھی بھی ملبے کے نیچے لاشیں موجود ہیں، بونیر میں گھروں، گاڑیوں، دکانوں اور دیگر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
کیا واقعی صوبے کو کسی مدد کی ضرورت نہیں؟
تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعلیٰ کا بیان ایک سیاسی بیان ہے، جو اپنے ورکرز کو خوش کرنے اور وفاق میں مخالف حکومت پر تنقید کے لیے دیا گیا، ان کا کہنا ہے کہ وفاق کی مدد کے بغیر صوبائی حکومت اس صورتحال سے نہیں نمٹ سکتی۔ پشاور میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا کہ اس وقت وفاقی ادارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سرگرم ہیں اور 2 ہیلی کاپٹر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ متاثرین کی بحالی کے لیے خطیر فنڈز درکار ہوں گے، ابھی تو ریسکیو کا عمل جاری ہے، بحالی پر کام باقی ہے، صوبہ معاشی طور پر 90 فیصد سے زیادہ وفاق پر انحصار کرتا ہے۔ ’اگر وفاق سے ماہانہ پیسے ریلیز نہ ہوئے تو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو جائے گا، صوبے کے پاس آمدنی کے وسائل کم ہیں، جو پیسہ موجود ہے اگر وہ سب خرچ بھی کر دیا جائے تو صوبہ تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہے گا۔‘
سیاست سے بالاتر ہو کر کام کریں گے، امیر مقام
وفاقی وزیر اور ن لیگ کے رہنما انجینئر امیر مقام نے بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی، ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل وقت ہے اور سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے، وفاقی حکومت متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور وزیراعظم کی ہدایت پر وہ خود متاثرہ اضلاع میں آئے ہیں۔
امیر مقام نے کہا کہ بجلی کی مکمل بحالی پر کام جاری ہے اور این ڈی ایم اے سمیت دیگر ادارے صوبائی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔