امریکا نے ایک بار پھر بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ روس سے خام تیل کی خریداری بند کرے کیونکہ یہ اقدام یوکرین میں جاری جنگ کے لیے روسی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت روسی تیل انڈین پیداوار کہہ کر باقی ملکوں کو بیچتا ہے، جنگ بندی کا کریڈٹ کیوں نہیں دیا؟ ٹرمپ مودی حکومت پر غصہ
وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیوارو نے ایک مضمون میں بھارت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت دراصل روسی تیل کا عالمی مرکز بن چکا ہے جو پابندیوں والے خام تیل کو مہنگی مصنوعات میں تبدیل کر کے ماسکو کو ڈالرز فراہم کر رہا ہے۔
نیوارو نے خبردار کیا کہ بھارت کا یہ رویہ نہ صرف موقع پرستی پر مبنی ہے بلکہ دنیا کی جانب سے روسی معیشت کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کو کمزور بھی کر رہا ہے۔ ان کے مطابق بھارت کو اگر امریکا کے ایک اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر سنجیدگی سے لیا جانا ہے، تو اسے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانی ہوگی۔
روس سے قربت، چین سے رابطے، امریکہ سے فاصلہ
بھارت اس وقت روس سے تیل خریدنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس سے اس کی توانائی کی ضروریات کا 30 فیصد سے زائد پورا ہوتا ہے۔ روس نہ صرف بھارت کا دفاعی شراکت دار ہے بلکہ S-400 جیسے اہم اسلحہ جاتی نظام بھی وہیں سے خریدا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: ’خود امریکا نے روسی تیل لینے کی ترغیب دی‘، بھارت کا ٹرمپ کی تنقید پر ردعمل
اس سب کے باوجود بھارت نے حالیہ برسوں میں امریکا کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹیجک شراکت داری تک بڑھایا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت 128 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ بھارت سے درآمد ہونے والی متعدد اشیاء پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔
بھارت پر روس سے تیل کی خریداری روکنے کے لیے امریکی دباؤ میں شدت آ گئی ہے جبکہ بھارت اس وقت داخلی معیشت، توانائی کی ضروریات اور دفاعی شراکت داری جیسے عوامل کے پیش نظر اپنی پوزیشن پر قائم دکھائی دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: روس سے تیل کی خریداری: ٹرمپ نے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا
امریکا کی جانب سے بڑھتے ہوئے تجارتی اقدامات اور بھارت کے چین و روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات آنے والے دنوں میں خطے میں سفارتی توازن کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔