گزشتہ 22 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مصالحت کار ملکوں مصر اور قطر کے ساتھ امریکا کی پشت پناہی میں ایک تازہ سفارتی کوشش کے نتیجے میں حماس نے غزہ کے لیے پیش کی گئی جنگ بندی کی نئی تجویز کسی ترمیم کے مطالبے کے بغیر قبول کر لی۔
یہ بھی پڑھیں: حماس نے اسرائیل کا غزہ کے شہریوں کی منتقلی کا منصوبہ مسترد کر دیا
حماس کے ایک ذریعے نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا کہ حماس اور متعلقہ پارٹیوں نے اس منصوبے کو بغیر کسی ترمیم کے منظور کر لیا ہے اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
اس سلسلے میں اسرائیل کا تاحال کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
بنیادی نکات
مصالحت کاروں کی جانب سے پیش کردہ اس منصوبے میں ابتدائی طور پر 60 روزہ جنگ بندی اور 2 مرحلوں میں یرغمالیوں کی رہائی کا خاکہ شامل ہے۔
اسلامی جہاد کے ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں 10 زندہ یرغمالیوں اور کچھ مرداروں کی واپسی جبکہ باقی یرغمالیوں کی رہائی دوسرے مرحلے میں کی جانی ہے۔ تمام فلسطینی فریقین کو اس تجویز کی حمایت ہے۔
مزید پڑھیے: اسرائیل بھر میں غزہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبے پر مظاہرے
اسرائیلی سیکیورٹی کمیٹی نے غزہ شہر اور پناہ گزین کیمپوں میں جنگ پھیلانے کے پلان منظور کیے تھے جس نے بین الاقوامی اور داخلی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا۔
مصالحت کاروں نے اس معاہدے کے تنفیذ کے لیے عملی ضمانتوں اور مستقل حل کے لیے مذاکرات کی بحالی کی تاریخ پر بھی پیش رفت کی ہے۔
مالی امداد اور انسانی صورتحال کے تناظر میں مصر نے کہا ہے کہ غزہ کی موجودہ صورت حال تصور سے باہر ہے اور ایک بین الاقوامی طاقت کو وہاں تعینات کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے بشرطیکہ اس کی حمایت اقوام متحدہ کی قرارداد اور سیاسی راستے کے ساتھ ہو۔
مزید پڑھیں: اسرائیل غزہ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعویٰ
غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 62 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ غذائی قلت اور بھوک نے انسانی تباہی کو بڑھا دیا ہے۔