چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای نے کہا ہے کہ چین اور بھارت کو درست اسٹریٹجک فہم پیدا کرتے ہوئے ایک دوسرے کو حریف کے بجائے شراکت دار کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق وانگ ای نے پیر کے روز بھارتی وزیر خرجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کے دوران کہا کہ چین بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور باہمی مفاد کے اصول کو برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے۔
ملاقات میں دونوں وزرائے خارجہ نے سرحدی امن، تجارت اور دوطرفہ روابط پر بات چیت کی۔
یہ بھی پڑھیے امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ
بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے کہا کہ ہماری بات چیت میں تجارت، یاترا، عوامی روابط، دریائی اعداد و شمار کی شراکت، سرحدی تجارت، رابطہ کاری اور دوطرفہ تبادلوں پر مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ گفتگو دونوں ممالک کے درمیان ایک مستحکم، تعمیری اور مستقبل بین تعلقات میں مدد دے گی۔
وانگ ای کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مختلف سطحوں پر روابط اور مکالمے بتدریج بحال ہو رہے ہیں اور تعلقات دوبارہ تعاون کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ چین اور بھارت بڑے ممالک ہونے کے ناتے ترقی پذیر دنیا کے لیے اتحاد اور خود انحصاری کی مثال قائم کریں۔
یہ بھی پڑھیے چینی وزیر خارجہ کا دورہ بھارت: سرحدی کشیدگی میں کمی اور اعتماد کی بحالی ایجنڈے میں شامل
یاد رہے کہ چینی وزیر خارجہ وانگ ای گزشتہ روز 2 روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچے، جہاں انہوں نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے ساتھ سرحدی مذاکرات کے 24ویں دور میں شرکت کی اور وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔
جے شنکر نے کہا کہ سرحدی مسائل پر بات چیت نہایت اہم ہے، کیونکہ بھارت-چین تعلقات میں کسی بھی مثبت پیش رفت کی بنیاد سرحدی علاقوں میں امن قائم رکھنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کو 2020 کے مہلک تصادم کے بعد مغربی ہمالیہ میں تعینات اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹانا چاہیے۔
یاد رہے کہ بھارت اور چین کے تعلقات 2020 میں سرحدی جھڑپ کے بعد شدید متاثر ہوئے تھے، جس میں بھارت کے 20 اور چین کے 4 فوجی مارے گئے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اکتوبر میں روس میں چینی صدر شی جن پنگ اور نریندر مودی کی ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے سرحدی کشیدگی میں کمی پر اتفاق کیا تھا اور تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔
وانگ ای کا یہ دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب وزیراعظم نریندر مودی 7 سال بعد پہلی بار چین جائیں گے تاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر سکیں۔