پنجاب میں ممکنہ جنگ، ہنگامی حالات اور سوشل میڈیا کے پراپیگنڈا کے اثرات سے نمٹنے کے لیے “پنجاب وار بک” کو 45 سال بعد جدید خطوط پر تیار کیا جا رہا ہے۔
یہ اسٹریٹجک دستاویز پہلی بار 1981ء میں تیار کی گئی تھی اور صوبے میں جنگ یا ہنگامی صورتحال کے دوران عوام کی حفاظت، اہم تنصیبات کی حفاظت، ہسپتالوں اور مواصلاتی نظام کی بروقت فعالیت کے لیے تمام حکمت عملی اور پروٹوکولز کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے سیکریٹری ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس میں وار بک کی تیاری کے ابتدائی خاکے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نئے خطرات کے پیش نظر:
مزید پڑھیں: مشینری کی واپسی کے معاملے پر پنجاب حکومت کا عدم تعاون جاری ہے، خیبرپختونخوا وزرا
ڈویژنل اور ضلعی انٹلیجنس کمیٹیوں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے مکمل اختیارات دیے جائیں گے۔
میزائل حملے، ڈرون حملے اور سائبر اٹیک کی صورت میں فوری رسپانس کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
صوبے کے تمام رہائشی علاقوں میں محفوظ بنکرز اور شیلٹرز کی تعمیر کے لیے قوانین میں ترامیم پر غور کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر ممکنہ پراپیگنڈا کی روک تھام اور مستند معلومات کی بروقت ترسیل کو وار بک کا حصہ بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں جدید شہری ترقی کے لیے مریم نواز کا جاپانی ماڈل اپنانے کا فیصلہ
اجلاس میں بتایا گیا کہ نئے وار بک میں ہر محکمے اور ادارے کی ذمہ داریوں کی واضح حد بندی کی جائے گی تاکہ ضرورت کے وقت بروقت اور بہترین ردعمل ممکن ہو سکے۔ ہنگامی حالات میں خوراک، ادویات اور دیگر وسائل کی بروقت ترسیل یقینی بنانے کے لیے تمام اضلاع میں وسائل کی میپنگ بھی مکمل کی جائے گی۔
سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے، سول ڈیفنس، ریسکیو 1122 اور دیگر سیکیورٹی ادارے مکمل کوآرڈینیشن کے ساتھ ہنگامی حالات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کریں گے، اور صوبے بھر میں سول ڈیفنس کے کنٹرول رومز فعال رکھے جائیں گے۔
یہ اقدام صوبے کی دفاعی اور ہنگامی تیاریوں کو جدید دور کے چیلنجز کے مطابق مؤثر بنانے کی سمت اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔