دنیا بھر میں کئی معروف اور بڑی کمپنیاں حالیہ برسوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر بند ہو چکی ہیں جس نے کاروباری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ دنیا کے عمومی حالات کا مسئلہ تو تھا بھی لیکن شاید یہ کمپنیاں بھی اتنی قدامت پسندی سے چلتی رہیں کہ وقت کے تیز دھارے میں ان کے قدم اکھڑنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: دہائیوں پہلے دنیا کو چیٹنگ کے ذریعے جوڑنے والی کمپنی اے او ایل کا انٹرنیٹ باب بند ہوگیا
ویسے بھی آج کے دور میں کاروباری ناکامی کی شرح بھی خاصی زیادہ ہے۔ ہر 5 میں سے ایک نیا کاروبار پہلے ہی سال میں بند ہو جاتا ہے جب کہ صرف نصف کمپنیاں 5 سال بعد تک زندہ رہتی ہیں۔
اگرچہ نئے کاروباروں کے لیے خطرات ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں لیکن حالیہ عالمی حالات کمزور معیشت، عالمی وبا، سیاسی کشیدگی، بریگزٹ، بلند شرح سود اور قدرتی آفات نے بھی بڑی اور مستحکم کمپنیوں کو بھی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
چند ایسی ہی مشہور کمپنییاں ہیں جو وقت کے ساتھ خود کو نہ بدل سکیں اور بالآخر مارکیٹ سے باہر ہو گئیں۔
بلیک بیری
ایک وقت تھا جب بلیک بیری دنیا بھر میں موبائل فون کا سب سے معتبر نام سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب ایپل کے بانی اسٹیو جابز نے آئی فون متعارف کرایا تو پوری موبائل انڈسٹری بدل گئی۔
ٹچ اسکرین، خوبصورت ڈیزائن اور جدید سہولیات نے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کیا جب کہ بلیک بیری کمپنی وقت کے ساتھ خود کو ڈھالنے میں ناکام رہی۔
سنہ 2016 تک اس کا مارکیٹ شیئر صرف 0.2 فیصد رہ گیا اور یوں وہ کمپنی جو کبھی رہنما تھی پس منظر میں چلی گئی۔
کوڈک
سنہ 1889 میں قائم ہونے والی کمپنی کوڈک نے 20ویں صدی میں فوٹو گرافی کے میدان پر راج کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کا پہلا ڈیجیٹل کیمرا بھی کوڈک نے سنہ 1975 میں ہی ایجاد کر لیا تھا۔
ماہرین کے مطابق کمپنی نے اپنے روایتی فلم بزنس کے منافع کو بچانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کو دبایا اور یوں ڈیجیٹل انقلاب کا موقع گنوا دیا۔
مزید پڑھیں: ’وہ دکان اپنی بڑھا گئے‘: فوٹوگرافک کمپنی کوڈک 133 سال بعد کاروبار سمیٹنے پر مجبور
جب دیگر کمپنیاں جیسے فیوجی اور کنین آگے نکل گئیں اور کوڈک پیچھے رہ گیا۔
سنہ 2012 میں کوڈک نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
بارڈرز
سنہ 1971 میں قائم ہونے والی یہ امریکی کتابوں کی دکانوں کی چین ہے جو 400 کے قریب اسٹورز اور 10 ہزار سے زائد ملازمین رکھتی تھی۔
مگر جب ای کامرس نے زور پکڑا بارڈرز نے اپنے روایتی طریقہ کار سے چمٹے رہنے کا فیصلہ کیا۔
لوگ امیزون سے کتابیں منگوانے لگے جبکہ بارڈرز نے صرف فزیکل اسٹورز پر توجہ رکھی اور نتیجہ دیوالیہ پن کی صورت میں نکلا۔
ٹوائز آر اَس
یہ بچوں کے کھلونوں اور اشیائے ضروریہ کی مشہور ترین عالمی چین تھی جس کے اسٹورز امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا میں موجود تھے۔
سنہ 2000 میں، اس نے امیزون کے ساتھ ایک 10 سالہ ایکسکلوسیو معاہدہ کیا مگرامیزون نے دوسرے کھلونا فروشوں کو بھی اپنی سائٹ پر اجازت دے دی۔
ٹوائے آر اَس نے اپنی ای کامرس سروس شروع کرنے کا موقع گنوا دیا اور وال مارٹ جیسے حریفوں کا مقابلہ نہ کر سکی۔ سنہ 2017 میں کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔
دی باڈی شاپ
سنہ 1976 میں انیتا راڈک نے اس برطانوی بیوٹی برانڈ کی بنیاد رکھی جو ظلم سے پاک اور اخلاقی تجارت کے اصولوں پر کھڑی تھی۔ اس کی انفرادیت ہی اس کی طاقت تھی۔
مگر سال 2006 میں جب اسے L’Oréal نے خریدا اور بعد ازاں ایک پرائیویٹ ایکویٹی فرم Aurelius کو فروخت کیا گیا تو برانڈ کی وہ شناخت ختم ہونے لگی۔
سنہ 2024 میں باڈی شاپ کو انتظامی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کمپنی بھی اپنے عہد کا ایک ختم ہوتا ہوا باب بن گئی۔
دنیا کی کوئی بھی کمپنی خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اگر وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھے جدت نہ اپنائے یا صارف کی بدلتی ضرورتوں کو نظر انداز کرے تو اس کے ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایسی کمپنیوں کا ایک انفرادی حسن بھی ہوسکتا ہے جو اپنے بنائے اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتیں اور زمانے کی ہوا ان کے قدم اکھیڑ دیتی ہے۔