سپریم کورٹ کے2 سینیئر ججوں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کی گئی کمیٹی کے اجلاس کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ یحییٰ آفریدی کے نام ایک بار پھر خط لکھ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ججوں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس آف پاکستان کو تحریری خط میں نہ صرف عدالتی طریقہ کار پر اعتراضات اٹھائے ہیں بلکہ ادارے کے اندرونی شفافیت اور آئین کے احترام کے حوالے سے سنگین سوالات بھی کھڑے کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس منصور علی شاہ کا سیکرٹری جوڈیشل کمیشن کے نام ایک اور خط، سینیارٹی پر سوالات
ججز نے خط میں لکھا ہے کہ یہ خط دراصل آئین کی 26ویں ترمیم سے متعلق مقدمات کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازع کا تسلسل ہے۔ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بنائی گئی کمیٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چیف جسٹس اکیلے نہیں بلکہ کمیٹی کی مشاورت سے بڑے مقدمات کے لیے بینچ تشکیل دیں۔
20 August by Muhammad Nisar Khan Soduzai
خط میں کہا گیا ہے کہ 31 اکتوبر 2024 کے اجلاس میں کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ اتنے بڑے آئینی تنازع کو فل کورٹ یعنی تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے، تاکہ فیصلے پر کسی کو جانبداری یا تعصب کا شبہ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: 6 ججوں کے خط کے بعد عدلیہ کتنی تبدیل ہوئی؟
ججز نے خط میں واضح کیا کہ چیف جسٹس نے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا بلکہ دیگر ججوں سے الگ الگ رائے لے کر یہ تاثر دیا کہ فل کورٹ کی ضرورت نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے مطابق یہ طریقہ کار غیر قانونی اور غیر شفاف تھا کیونکہ کمیٹی کا فیصلہ اکثریت سے ہوچکا تھا اور اس پر عمل درآمد لازمی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرز عمل سے نہ صرف کمیٹی کی آئینی حیثیت کمزور ہوئی بلکہ عدالت کی اجتماعی دانش کا مظاہرہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو ملک کے اندر آئینی ہم آہنگی پیدا ہوتی اور یہ ایک تاریخی موقع ہوتا کہ سپریم کورٹ بطور ادارہ ایک آواز میں اہم ترین آئینی سوال کا جواب دیتی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ پر تنقید ہوئی، تقسیم مزید واضح ہوئی اور ادارے کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بائیکاٹ کر دیا
دونوں ججز نے یہ بھی لکھا ہے کہ چیف جسٹس کے ہدایتی نوٹس اور رجسٹرار کے منٹس اب عدالت کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، لہٰذا ان کا خط بھی اسی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے تاکہ مکمل حقائق عوام کے سامنے آ سکیں اور صرف ایک پہلو نہ دکھایا جائے۔