وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ملک میں حالیہ مون سون کے دوران ہونے والی بارشوں کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔
کراچی میں نرسری کے مقام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، چین، نیویارک اور ہیوسٹن میں حالیہ تباہ کن سیلابوں کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ یہ سب عالمی ماحولیاتی بحران کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بارش کا نیا سلسلہ، شہر میں پانی جمع اور سڑکیں بند
کراچی میں بارشوں کا ذکر کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے بتایا کہ صرف 3 سے 4 گھنٹوں میں 160 سے 170 ملی میٹر بارش ہوئی جبکہ 12 گھنٹوں میں یہ مقدار 185 سے 200 ملی میٹر تک پہنچ گئی، جو کسی بھی گنجان آباد شہر میں شہری سیلاب کا باعث بنتی ہے۔
انہوں نے اس کا تقابل ممبئی سے کیا جہاں اسی دورانیے میں 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی مگر وہاں کی اوسط سالانہ بارش کراچی سے قریباً 10 گنا زیادہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ مستقبل میں ایسے شدید موسمی اثرات سے نمٹنے کے لیے جدید اور مؤثر نکاسی آب کا نظام قائم کرنا ناگزیر ہے تاکہ شہریوں کی حفاظت اور شہر کی پائیداری یقینی بنائی جا سکے۔
مراد علی شاہ نے کہاکہ موسلا دھار بارش کے باوجود رات گئے تک شہر سے پانی کلیئر کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود نصف شب تک صورتحال کی نگرانی کرتے رہے اور صبح تک وہ سڑکیں جہاں پانی کھڑا تھا، خالی ہو چکی تھیں۔
انہوں نے 2020 کے بدترین سیلابی حالات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پانی 24 گھنٹے سے زیادہ رکا رہا تھا، جبکہ اس مرتبہ نسبتاً فوری نکاسی ہوئی۔ تاہم انہوں نے بعض خامیوں کو تسلیم کیا اور اعلان کیا کہ جو افسران اپنے فرائض میں ناکام رہے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ نے کچھ میڈیا چینلز پر پرانی فوٹیجز نشر کرنے پر بھی تنقید کی جس سے عوام میں شہر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں گمراہ کن تاثر پیدا ہوا۔ انہوں نے صحافتی اداروں سے اپیل کی کہ وہ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کریں تاکہ عوام کو بارشوں کے دوران درست حفاظتی رہنمائی میسر آ سکے۔
ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبائی وزرا اور مقامی حکام بارش کے دوران مسلسل فیلڈ میں موجود رہے تاہم کچھ بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی پر انہیں تشویش ہے۔ انہوں نے کہاکہ ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے قیام کے بعد تقسیم اور کارکردگی میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔
انہوں نے سیاسی جماعتوں بالخصوص کراچی کے 13 جماعتِ اسلامی ٹاؤن چیئرمینز سے اپیل کی کہ الزام تراشی کے بجائے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور شہر کو سنبھالنے میں تعاون کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ عالمی بینک نے 2020 میں کراچی کے لیے 1.6 ارب ڈالر کا پیکیج منظور کیا تھا، جس میں سے 10 کروڑ ڈالر کراچی واٹر بورڈ کو مضبوط بنانے پر خرچ کیے جا چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ واٹر بورڈ کو ازسرنو ترتیب دے کر نجی شعبے کے ماہرین کی شمولیت کے ساتھ ایک نئی واٹر کارپوریشن قائم کی گئی ہے تاکہ اس کی کارکردگی بہتر ہو۔
انہوں نے بعض تجزیہ کاروں کے اس بیانیے کو مسترد کیا کہ فنڈز کا غلط استعمال ہوا ہے، اور وضاحت کی کہ فنڈز قسط وار اور کارکردگی کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں۔ اب تک تقریباً 28 سے 30 ارب روپے شفاف طریقے سے پانی کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن پر خرچ ہو چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے شہر کی سڑکوں کے بار بار خراب ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کینٹ بورڈز، کے ڈی اے اور کے ایم سی جیسی ایجنسیاں آزادانہ طور پر سڑکیں کاٹنے کی اجازت دیتی ہیں جس سے مسائل بڑھتے ہیں۔ اس کے حل کے لیے انہوں نے ایک مرکزی روڈ کٹنگ اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی جو سڑکوں کی کھدائی اور مرمت کی نگرانی کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ شہر کے بعض اداروں خصوصاً واٹر بورڈ کے اختیارات میئر کراچی کو منتقل کر دیے گئے ہیں تاکہ شہری انتظام بہتر ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے موجودہ میئر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ محض فنڈز کے مطالبات کرنے کے بجائے وسائل بڑھانے اور عملی اقدامات پر توجہ دے رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے عوام سے اپیل کی کہ بارش کے دوران غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں تاکہ ٹریفک جام اور عوامی مشکلات کم ہوں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی وزرا شرجیل انعام میمن اور سعید غنی کے ہمراہ شہر کے ہنگامی دورے کیے تاکہ بارش اور نکاسی آب کی صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔ انہوں نے سب سے پہلے شارع فیصل کا دورہ کیا، پھر فریئر ہال اور نرسری نالہ گئے جہاں میئر کراچی نے انہیں صفائی اور نکاسی کے جاری اقدامات پر بریفنگ دی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بارش رکنے کے باوجود فلائٹس آپریشن بحال کیوں نہ ہوسکا؟
وزیراعلیٰ نے کہا کہ نکاسی آب اور عوامی ریلیف میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت دی کہ وہ ہر وقت الرٹ رہیں اور فوری مدد فراہم کریں۔ ساتھ ہی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں تاکہ ٹریفک کے مسائل اور عوامی مشکلات کم ہو سکیں۔