اسرائیلی حکومت نے بدھ کے روز ایک انتہائی متنازع بستی منصوبے کو حتمی منظوری دے دی ہے، جسے عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ یہ منصوبہ، جسے ای 1 (E1) کے نام سے جانا جاتا ہے، مقبوضہ مغربی کنارے کو مشرقی یروشلم سے کاٹ دے گا اور اس طرح مستقبل کی فلسطینی ریاست کے امکان کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔
اسرائیلی وزیر خزانہ اور دائیں بازو کے اتحاد سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنما بیزالیل سموترچ نے ایک بیان میں کہا:
’ای 1 کے ساتھ ہم وہ وعدہ پورا کر رہے ہیں جو برسوں سے التواء میں تھا۔ فلسطینی ریاست کو اب نعرے بازی سے نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے میز سے ہٹا دیا جا رہا ہے۔‘
عالمی سطح پر سخت ردعمل
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ منصوبہ 2 ریاستی حل کے دل پر کاری ضرب لگائے گا۔ ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام بستیوں کی توسیع فوری طور پر روک دے۔‘
دوسری طرف فلسطینی وزارتِ خارجہ نے بھی اس فیصلے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ای 1 منصوبہ فلسطینی بستیوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دے گا اور کسی بھی ممکنہ 2 ریاستی حل کو ناکام بنا دے گا۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیل نے غزہ سٹی پر قبضے کی منظوری دیدی، 60 ہزار ریزرو فوجی طلب
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے ایک بیان میں کہا کہ ’اگر یہ منصوبہ نافذ ہوا تو یہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کو 2 حصوں میں بانٹ دے گا، یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہوگا اور 2 ریاستی حل کو تباہ کن نقصان پہنچائے گا۔‘
جرمن حکومت کے ترجمان نے بھی کہا کہ بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور یہ ایک مذاکراتی حل اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اسرائیلی موقف
وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے ای 1 منصوبے پر براہِ راست تبصرہ نہیں کیا، تاہم حالیہ دنوں میں ایک اور مغربی کنارے کی بستی میں خطاب کے دوران کہا:
’میں نے 25 برس پہلے کہا تھا کہ ہم فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے اور اس سرزمین پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانے کے لیے سب کچھ کریں گے۔ خدا کا شکر ہے، ہم نے وہ وعدہ پورا کیا ہے۔‘
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر تاریخی اور بائبلی تعلقات کے ساتھ ساتھ اس کی سلامتی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری کی اکثریت ان بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
متنازع منصوبے کی تفصیل
ای 1 منصوبہ، جو مشرقی یروشلم کے قریب معالیہ ادومیم کے پہلو میں واقع ہے، تقریباً 3,400 رہائشی یونٹس کی تعمیر پر مشتمل ہے۔ یہ منصوبہ ماضی میں 2012 اور 2020 میں امریکی اور یورپی دباؤ کے باعث روک دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیلی توسیع پسندانہ منصوبے عالمی امن کے لیے خطرہ قرار، پاکستان و مسلم وزرائے خارجہ کا مشترکہ اعلامیہ
امن کے لیے سرگرم اسرائیلی گروپ ’پیس ناؤ‘ کے مطابق، بنیادی ڈھانچے کے کام آئندہ چند ماہ میں شروع ہوسکتے ہیں جبکہ گھروں کی تعمیر ایک سال کے اندر متوقع ہے۔
2 ریاستی حل، جسے عالمی برادری اسرائیل-فلسطین تنازع کا پائیدار حل سمجھتی ہے، مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ اور غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا تصور پیش کرتا ہے جو اسرائیل کے ساتھ بقائے باہمی میں رہ سکے۔ تاہم، اسرائیلی حکومت کے تازہ اقدامات نے اس تصور کو مزید دھندلا دیا ہے اور عالمی سطح پر تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔