برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواستوں کی تعداد جون تک ایک سال میں 111 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار میں بتای گیا ہے کہ گرچہ ہوٹلوں میں پناہ گزینوں کی رہائش میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن یہ سطح اب بھی 2023 میں کنزرویٹو حکومت کے دور میں ریکارڈ کی گئی بلند ترین سطح سے کم ہے۔ تاہم چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچنے والے افراد کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ رہی، جو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے،جون تک ایک سال میں 111 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں مقیم پاکستان سمیت 11 ممالک کے غیرقانونی پناہ گزین واپس بھیجنے کا فیصلہ
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے پناہ کی درخواستوں کے پراسیسنگ کے عمل کو تیز کرتے ہوئے دعووں کے بیک لاگ میں نمایاں کمی کی ہے۔ لیکن اپیل کورٹ میں بڑھتے دباؤ نے اس پورے نظام پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کی کہ عدالتیں اس وقت ایک رکاوٹ ہیں اور ہمیں وزارت انصاف سے اس سلسلے میں تعاون کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مارچ کے بعد کشتیوں کے ذریعے بڑی تعداد میں آنے کے باوجود ہوٹلوں کے استعمال میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ مارچ اور جون کے درمیان ان میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔ تاہم عام گھروں اور فلیٹس میں رہائش کے متبادل انتظامات میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں پناہ لینے کا خواب دیکھنے والوں کو روانڈا بھیجا جائے گا
حکومتی دعوے کے برعکس اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اصل امتحان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کی تعداد ہے جو اب بھی ریکارڈ سطح پر ہے۔ شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ نے الزام عائد کیا کہ اگر ان کی پارٹی کا منصوبہ پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجنے کا نافذ ہوتا تو یہ اعداد و شمار زیرو ہوتے۔
ادھر ایک سابق جسٹس سیکریٹری نے دعویٰ کیا کہ اپیلز میں بڑھتی ہوئی تاخیر دراصل ہوم آفس کی جانب سے کمزور کیس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے، جو ابتدائی درخواستوں کے مرحلے میں کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں افغان شہریوں کا ڈیٹا لیک، 3 ہزار 700 افراد متاثر
یاد رہے کہ برطانیہ کی موجودہ حکمران جماعت لیبر پارٹی نے انتخابات کے دوران ہوٹلوں میں پناہ گزین رکھنے کا سلسلہ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اس ہدف سے اب بھی کافی دور ہے۔