امریکی وفاقی جج نے فلوریڈا اور ٹرمپ انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایورگلیڈز میں قائم بڑے حراستی مرکز کی سرگرمیاں ختم کریں اور وہاں مزید قیدی منتقل نہ کیے جائیں، یہ مرکز، جسے عام طور پر ’ایلیگیٹر الکیٹراز‘ کہا جاتا ہے، تعمیر کے مراحل میں تھا۔
یہ عبوری حکم امریکی ڈسٹرکٹ جج کیتھلین ولیمز نے جمعرات کو سنایا، مقدمہ ماحولیاتی تنظیم فرینڈز آف دی ایورگلیدز اور سینٹر فار بائیولوجیکل ڈائیورسٹی نے دائر کیا تھا، جن کا مؤقف تھا کہ ریاست اور وفاقی حکومت نے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ مرکز تعمیر کرنا شروع کیا کیونکہ کسی قسم کا ماحولیاتی جائزہ نہیں لیا گیا۔
جج ولیمز، جنہیں سابق صدر باراک اوباما نے نامزد کیا تھا، نے حکومت کو 60 دن کے اندر عارضی باڑیں، لائٹنگ، جنریٹرز، گیس، سیوریج اور دیگر کچرا ہٹانے کا بھی حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ۔ پیوٹن سربراہی اجلاس: امریکا کی روس پر پابندیوں میں عارضی نرمی
یہ فیصلہ ماحولیاتی گروپس اور امیگریشن کے حامیوں کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جو اس مرکز کی تعمیر کے خلاف تھے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بڑا دھچکا بھی ہے، جو امیگریشن کریک ڈاؤن کے تحت تیزی سے حراستی سہولتیں بڑھانا چاہتی تھی۔
ماحولیاتی کارکن ایو سیمپلز نے کہا کہ یہ ایورگلیڈز اور ان تمام امریکیوں کے لیے تاریخی فتح ہے جو سمجھتے ہیں کہ اس قدرتی خطے کو محفوظ کیا جانا چاہیے، نہ کہ اسے برباد کیا جائے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ فلوریڈا اور وفاقی حکومت نے نیشنل انوائرمنٹل پالیسی ایکٹ کی خلاف ورزی کی کیونکہ منصوبہ شروع کرنے سے پہلے کسی بھی قسم کا جائزہ نہیں لیا گیا، جج نے لکھا کہ نہ کسی ماہر سے مشورہ کیا گیا اور نہ خطرات اور متبادل راستوں کا کوئی تجزیہ کیا گیا۔
ماحولیاتی تنظیموں اور مقامی میکوسوکی قبیلے نے یہ بھی بتایا کہ اس مرکز سے پانی اور خوراک کے ذرائع کو خطرہ لاحق ہوگا اور فضلہ اور گندا پانی علاقے کی آبی سپلائی کو آلودہ کرسکتا ہے۔
سینٹر فار بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کی ڈائریکٹر ایلیس بینیٹ کے مطابق یہ حراستی مرکز ہمارے سب سے اہم دلدلی علاقے اور نایاب جانوروں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا، خوشی ہے کہ عدالتی حکم نے بروقت اس خطرے کو روک دیا۔














