بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع گوالیار کے گاؤں ہرسی میں 25 سالہ دلت نوجوان، جسے برادری سے باہر شادی کرنے کے بعد گاؤں چھوڑنا پڑا تھا، واپسی پر سسرالیوں سمیت دیگر افراد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ 19 اگست کو پیش آیا۔
یہ بھی پڑھیں:مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کیخلاف تشدد میں ہندوستان پیش پیش
پولیس نے بتایا کہ اتوار کے روز تشدد سے زخمی ہوکر دم توڑنے والے اوم پرکاش باتھم نامی نوجوان کے قتل کے الزام میں 12 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جن میں اس کی اہلیہ کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، اوم پرکاش باتھم نے رواں سال جنوری میں شیو پانی جھا سے شادی کی تھی، جو اس کے خاندان کی مرضی کے خلاف تھی، شادی کے بعد ہرسی پنچایت نے دوسری ذات سے ازدواجی تعلق قائم کرنے پر باتھم پر 51 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا اور گاؤں کے لوگوں کو اس کے خاندان کا بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: مسلمان طالبعلم سے ناروا سلوک ’اس ذہنیت کے ساتھ ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ واضح نہیں کہ اوم پرکاش نے جرمانہ ادا کیا یا نہیں، تاہم جوڑا گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوگیا، پولیس کے مطابق، 19 اگست کو گاؤں واپسی کے فوراً بعد اوم پرکاش پر حملہ کیا گیا، حملے کی قیادت مبینہ طور پر شیو پانی جھا کے والد، دوارکا جھا نے کی، جو واقعے کے بعد دیگر ملزمان کے ہمراہ مفرور ہے۔