وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے ایران پر آسٹریلیا میں کم از کم 2 یہود مخالف حملے کروانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینبرا میں تعینات ایرانی سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کے روز آسٹریلوی دارالحکومت میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ سڈنی اور میلبورن میں گزشتہ برس ہونے والے یہ حملے ’ایک غیر ملکی ریاست کی جانب سے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کیے گئے غیر معمولی اور خطرناک جارحانہ اقدامات‘ تھے۔
#BREAKING 🚨 Anthony Albanese says ASIO has confirmed that the Iranian government directed antisemitic attacks in Australia – including against the Adass Israel synagogue and Lewis' Continental Kitchen
Iran's ambassador has now been expelled from Australia pic.twitter.com/sJdyEjdOc5
— 6 News Australia (@6NewsAU) August 26, 2025
’یہ بالکل ناقابلِ قبول ہے اور آسٹریلوی حکومت اس پر سخت اور فیصلہ کن کارروائی کر رہی ہے۔‘
آسٹریلوی وزیرِاعظم نے بتایا کہ آسٹریلیا نے تہران میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے اور تمام سفارت کاروں کو کسی تیسرے ملک منتقل کر دیا گیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے قانون سازی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عثمان خواجہ کو مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی سے پھر روک دیا گیا
آسٹریلوی حکام کے مطابق یہ حملے 10 اکتوبر کو سڈنی میں لیوس کونٹی نینٹل کچن اور 6 دسمبر کو میلبورن میں ایڈاس اسرائیل سینیگاگ پر کیے گئے، دونوں واقعات میں حملہ آوروں نے عمارتوں کو آگ لگا دی تھی جس سے شدید نقصان ہوا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے بتایا کہ ایرانی سفیر احمد صادقی اور ان کے 3 ساتھیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر 7 دن کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: مائیکروسوفٹ کا روس، چین اور ایران پر سائبر جرائم میں ملوث گروہوں کیساتھ گٹھ جوڑ کا الزام
آسٹریلوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آسٹریلیا نے کسی سفیر کو ملک بدر کیا ہے، ساتھ ہی آسٹریلیا نے تہران سے اپنا سفیر بھی واپس بلالیا ہے۔
پینی وونگ کے مطابق آسٹریلیا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایران کے ساتھ کچھ حد تک سفارتی روابط برقرار رکھے گا، انہوں نے ایران میں موجود آسٹریلوی شہریوں کو واپس آنے اور وہاں جانے کے خواہش مندوں کو سفر سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
ایران کی جانب سے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔














