امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ جنوبی کوریا میں اپنے فوجی اڈوں کی زمین کا مالک ہو، بجائے اس کے کہ وہ اسے سیول سے کرایے پر لے۔
صدر ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں جنوبی کوریا کے نئے صدر لی جے-میونگ کے ہمراہ گفتگو میں کہا کہ امریکا نے کوریا میں بنیادی ڈھانچے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور وہاں 40 ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں، مگر یہ اڈے اب بھی کرایے کی زمین پر قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شاید میں ان سے درخواست کروں کہ ہمیں اس بڑی فوجی تنصیب کی زمین کی ملکیت دے دیں۔ میں دیکھنا چاہوں گا کہ کیا ہم کرایے کا سلسلہ ختم کرکے زمین کے مالک بن سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی دباؤ میں کوریا ایئر کا بوئنگ کے 103 طیاروں کا بیش قیمت معاہدہ
انہوں نے واضح نہیں کیا کہ کون سا فوجی اڈا مراد ہے۔ سب سے بڑا امریکی اڈا، کیمپ ہَمفریز، 2018 میں مکمل ہوا، جس میں دونوں حکومتوں نے اربوں ڈالر لگائے۔
امریکا کے بیرون ملک فوجی اڈے طویل المدتی کرایہ اور فورسز کی حیثیت کے معاہدوں کے تحت چلائے جاتے ہیں، جس سے واشنگٹن کو آپریشنل کنٹرول حاصل ہوتا ہے، جبکہ میزبان ملک کی خود مختاری برقرار رہتی ہے۔
موجودہ اندازوں کے مطابق جنوبی کوریا میں قریباً 28,500 امریکی فوجی تعینات ہیں، جو جاپان اور جرمنی کے بعد سب سے بڑی امریکی بیرون ملک فورس ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرائن کیخلاف روس کا ساتھ دینے والے شمالی کوریائی فوجیوں کے لیے اعزازات
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پہلی مدت میں سیول امریکی فوج کے اخراجات کے لیے بڑی رقم فراہم کرتا رہا، مگر صدر جو بائیڈن نے یہ معاہدہ ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اربوں ڈالر مل رہے تھے، مگر پھر بائیڈن نے اسے بند کر دیا، یہ ناقابل یقین ہے۔
ٹرمپ کے بیانات اس طویل المدتی موقف کی عکاسی کرتے ہیں کہ امریکی اتحادیوں کو امریکا کی حفاظت کے لیے زیادہ تعاون کرنا چاہیے، چاہے وہ براہِ راست مالی امداد، دفاعی بجٹ میں اضافہ یا اقتصادی روابط کے ذریعے ہو۔
اب تک جنوبی کوریا کی حکومت نے صدر ٹرمپ کے بیانات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ دوسری جانب شمالی کوریا طویل عرصے سے امریکی فوجی موجودگی کو قبضے کے طور پر تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔