پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر کیوں؟

منگل 26 اگست 2025
author image

راحیل نواز سواتی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، حالانکہ کاربن کے عالمی اخراج میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ جب پاکستان ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار ہی نہیں تو پھر سب سے زیادہ متاثر کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے زمینی حالات اور پالیسی کی کمزوریوں میں چھپا ہوا ہے۔

دنیا کے تجربات اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ جنگلات ماحولیاتی توازن کے لیے بنیادی ڈھال ہیں، ماہرین کے مطابق کسی ملک کے کل رقبے کا کم از کم 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، تاکہ ماحول متوازن رہے۔

جب کہ پاکستان میں یہ شرح 5 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، چین میں تقریباً 23 فیصد، بھارت میں 24 فیصد اور بنگلہ دیش میں 18 فیصد رقبہ جنگلات پر محیط ہے۔ جاپان کے تقریباً 68 فیصد اور یورپی یونین کے مجموعی طور پر 42 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان خطوں نے اپنی قدرتی حفاظتی ڈھال قائم رکھی ہے، جبکہ پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے ملک کے ماحولیاتی نظام کو خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے۔

خیبر پختونخوا اور  شمالی علاقوں میں درختوں کی کٹائی نے دریاوں کے کیچمنٹ ایریا کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے جہاں بارش کا پانی پہاڑوں اور وادیوں میں جذب ہو کر زیر زمین محفوظ ہو جاتا تھا اب وہ تیزی سے بہہ کر نشیبی علاقوں کو سیلاب کی شکل میں لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یوں قدرتی واٹر شیڈز پانی محفوظ کرنے کے بجائے سیلاب کا باعث بن گئے ہیں۔

پاکستان کے متاثر ہونے کی ایک اور بڑی وجہ پانی کے ذخائر اور نکاسی آب کا ناقص نظام ہے۔ بڑے ڈیمز کی شدید کمی اپنی جگہ لیکن افسوس یہ ہے کہ چھوٹے ڈیمز کی تعمیر پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، اگر وفاقی حکومت سے لے کر صوبائی، ضلعی، یونین کونسل کی سطح اور حتیٰ کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تو سیلابی پانی کو محفوظ کر کے زرعی اور شہری ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ پانی کو ری چارج کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے کے لیے واٹر ری چارج کا انتظام انہی تمام سطحوں پر لازمی ہونا چاہیے، تاکہ مستقبل کے لیے آبی وسائل محفوظ رہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سیلاب روکنے اور پانی ذخیرہ کرنے کے نظام کی صورتحال بھی اطمینان بخش نہیں، پاکستان کے پاس صرف 30 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جبکہ بھارت کے پاس 170 دن اور امریکہ کے پاس 900 دن تک کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

کالا باغ ڈیم سمیت چند منصوبے سیاسی تنازعات کی نذر ہو گئے اور چھوٹے ڈیمز کی تعمیر پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی نتیجہ یہ ہے، کہ ہر سال بارشوں اور سیلاب کے دوران اربوں مکعب میٹر پانی ضائع ہو کر سمندر میں چلا جاتا ہے، جو اگر ذخیرہ ہو تو سیلاب اور قحط سے بچاؤ ممکن ہے، بلکہ بجلی اور زراعت کے مسائل کا بھی موثرحل ہے۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ امریکہ، یورپ، جاپان اور چین جیسے ممالک کاربن کے سب سے بڑے اخراج کنندہ ہیں، لیکن وہ پاکستان کی طرح تباہ کن اثرات سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس مضبوط انفراسٹرکچر بڑے ڈیمز نکاسی آب کا جدید نظام وسیع پیمانے پر شجرکاری اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے منظم ادارے موجود ہیں ان ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اپنی پالیسیوں میں مرکزی حیثیت دی ہے، جبکہ پاکستان میں یہ معاملہ ابھی تک ترجیحات میں شامل نہیں۔

یہ صورت حال ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر ہم نے فوری طور پر جنگلات کے رقبے میں اضافہ نہ کیا چھوٹے ڈیمز نہ بنائے اور زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کے انتظامات نہ کیے تو آنے والے سالوں میں زرعی پیداوار سخت متاثر ہوگی۔

شہری اور دیہی آبادیاں بار بار تباہ کن سیلاب اور خشک سالی کی زد میں رہیں گی، پاکستان اگرچہ کاربن کے اخراج میں دنیا کا قصوروار نہیں، مگر موسمیاتی آفات کا سب سے بڑا شکار بن چکا ہے۔

قومی سلامتی اور بقا کے لیے ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp