انڈیا کا بیلنس آؤٹ اور پاکستان کا پرفیکٹ فٹ ہوگیا

بدھ 27 اگست 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارا بھارت مہان آج کل ٹرمپ کے نشانے پر ہے، یہ کون سا بھارت ہے جو اب امریکی ٹیرف کے رگڑے کھا رہا ہے، اس کو یوں سمجھیں کے امریکا کے حریف دو اتحاد برکس اور ایس سی او ہیں۔ دونوں میں مودی کا بھارت وہ کالی بھیڑ تھا جو امریکی مفاد میں کام کررہی تھی اور کوئی کام ہونے نہیں دے رہی تھی۔

2023 میں شنگھائی کانفرنس تنظیم کی چئیر انڈیا کے پاس آ گئی تھی، انڈیا نے تنظیم کے سربراہی اجلاس کو ورچوئل (آن لائن) کر کے ایک طرح سے اس کی اہمیت کم کردی۔ اگلے سال 2024 میں ایس سی او کا اجلاس قازان روس میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شرکت نہیں کی۔ ان کی نمائندگی وزیر خارجہ جے شنکر نے کی تھی۔ قازان اجلاس میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ دونوں موجود تھے۔ مودی کی غیر حاضری کو بھارت چین تعلقات اور روس چین تعلقات کے تناظر میں دیکھا گیا تھا۔

2023 میں روسی صدر پیوٹن نے پاکستان سے قربت کا اشارہ دیا تھا، انہوں نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کو نارتھ ساؤتھ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ انڈیا نے برکس کی اپنی کرنسی اور ڈالر سے آزاد ادائگیوں کے نظام کی بھی مخالفت کی تھی۔ برکس اور ایس سی او دونوں میں انڈیا، امریکی انٹرسٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے نمائندے کے طور پر کام کرتا رہا۔ ایس سی او نے امریکا اور اسرائیل کے ایران پر حملوں کی شدید مذمت کا بیان جاری کیا تھا۔ انڈیا اس موقع پر بھی برکس اور ایس سی او سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔

یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا کی روس سے تیل خریدنے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس کی وجہ عالمی انرجی مارکیٹ کی سپلائی اور قیمت مستحکم رکھنا ہی تھا۔ ٹرمپ نے انڈیا پر جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ 25 فیصد ٹیرف عائد کردیا ہے۔ اضافی 25 فیصد روس سے تیل کی خریداری کی وجہ سے عائد کیا گیا ہے۔ امریکا اور چین کی ٹیرف وار بھی جاری ہے لیکن چین پر روس سے تیل اور کوئلہ خریدنے کی وجہ سے کوئی اضافی ٹیرف نہیں لگایا گیا۔ یورپی یونین روسی ایل این جی کا سب سے بڑا خریدار ہے، یہ ایل این جی ایک پائپ لائین کے ذریعے یورپ پہنچتی ہے۔ ترکیہ بھی روس سے بڑی مقدار میں تیل اور گیس خریدتا ہے۔

امریکا خود روس سے کھاد، یورینیم، پلوٹونیم اور پیلاڈیم کی درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ انڈیا کی روس کو ایکسپورٹ 5 ارب ڈالر ہیں، یورپی یونین 34 ارب ڈالر، ترکیہ 9 ارب ڈالر اور چین 111 ارب ڈالر مالیت کی اشیا روس کو ایکسپورٹ کررہا ہے۔ فیکٹ جو بتا رہے ہیں، اس مطابق تو بھارت پر اتنے ٹیرف بنتے نہیں ہیں، پھر بھارت نشانہ کیوں ہے۔

2047 تک مودی نے انڈیا کو ’وکست بھارت‘ یعنی گلوبل پاور بنانا ہے۔ یہ مشن ہمارے بھارت مہان نے امریکی ٹیکنالوجی، معاشی مدد اور امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے مکمل کرنا تھا۔ 4 سال سے بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ تجارتی توازن بھی بھارت کے حق میں ہے۔ گلوبل پاور بننے کے چکر میں انڈیا نے پاکستان سے متھا لگا کر سر پھڑوا لیا ہے۔ ٹرمپ بھارت کے اس سر پڑواؤ مشن کے بعد سے پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لے رہا ہے۔

اس موقع پر بھارت کہتا ہے نہیں یہ تو ہم نے دو طرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ ہی کر لی تھی۔ پاکستان نے ٹرمپ کا جنگ بندی میں کردار تسلیم کرتے ہوئے اسے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کردیا ہے۔ ٹرمپ کا دھیان مودی پر اچھی طرح پڑ گیا ہے کہ سرینڈر مودی ایک تو پاکستان سے سر پھڑوا کر بیٹھا پھر اکڑ بھی رہا۔ روس سے تیل خرید خرید کر اس پر پابندیوں کو غیر مؤثر کرتا رہا۔ چین کے مقابلے پر اسے کھڑا کر رہے تھے، یہ راستے میں ہی پاکستان سے ٹانگ پھنسا کر خود ہی پھسل کر دھڑام بھی ہوگیا۔

امریکا کے ساتھ بھارت کا تجارتی ہجم قریباً 132 ارب ڈالر، چین کے ساتھ 127 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات کے ساتھ 100 ارب ڈالر اور روس کے ساتھ 68 ارب ڈالر ہے۔ امریکا کے علاوہ باقی تینوں ملک برکس کے ممبر ہیں۔ جہاں انڈیا امریکی بھیڑ بنا رہا ہے۔ بھارت روسی اسلحے پر اپنا انحصار کم کرنے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا تھا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کی سرگرم واپسی بھی اتنی آسان نہیں ہے۔ ایس سی او کے اہم ملک بھارت کے ساتھ ٹرمپیاں کرتے ہوئے اسے میڈیا پر نہیں رگڑیں گے لیکن بند کمروں میں خاصا مذاق ہو سکتا ہے ۔

اگلی کسی تحریر میں اس پر بات ہو گی کے کیسے روس سائبر سیکیورٹی کمپنیوں کا بڑا پلئر بن گیا ہے۔ مڈل ایسٹ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے بہت سے ملک روس سے سائبر سیکیورٹی کے معاہدے کررہے ہیں۔ اس کی وجہ ڈیٹا انفارمیشن اور انٹرنیٹ پر امریکی یورپی کنٹرول اور نگرانی ہے۔

ٹرمپ نے روس کی اس پیشرفت کو دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔ کسی ملک کے اندرونی نظام، انسانی حقوق، جمہوریت وغیرہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر وہاں حکومت کی رٹ اور کنٹرول بہتر ہے تو امریکا اس ملک سے معاہدے کررہا ہے۔ سینٹرل ایشین ممالک کے بارے ٹرمپ نے کہاکہ ان کی حکومتوں نے استحکام اور امن تو قائم کر رکھا ہے، یعنی اتنا ہے تو کافی ہے۔

پاکستان کا ذکر اس ساری کہانی میں رہ گیا ہے۔ اتنا حساب تو اب آپ خود بھی لگا ہی سکتے ہیں کہ پاکستان ایس سی او کا ایکٹیو ممبر ہے۔ روس پاکستان کو نارتھ ساؤتھ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شمولیت کی دعوتیں دے رہا ہے۔ ٹرمپ اٹھتے بیٹھے پاکستان کا ذکر کر رہا ہے، تو پاکستان کا بیلنس پرفیکٹ فٹ چل رہا ہے اور انڈیا کا آؤٹ ہو چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp