سی این این کے مطابق کاربن کے اخراج میں مسلسل اضافے کی وجہ سے سمندر ماحول سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں پی ایچ لیول کم ہو رہا ہے اور پانی تیزابی ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل سے سمندری جاندار اور ماحولیاتی نظام متاثر ہو رہے ہیں۔
مطالعے کے مرکزی محقق اور ماہر حیاتیات میکسیمیلیان باؤم نے کہا کہ چونکہ سمندری تیزابیت مرجان اور خول جیسی کیلشیم سے بنی ساختوں کو نقصان پہنچاتی ہے، ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا شارک کے دانت بھی متاثر ہو سکتے ہیں، خصوصاً وہ اقسام جو منہ کھلا رکھ کر تیرتی ہیں اور مسلسل سمندری پانی کے رابطے میں رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ماحولیاتی تبدیلی کیسے حاملہ خواتین اور نومولود بچوں پر اثر انداز ہو رہی ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ صرف چھوٹے جاندار جیسے مرجان یا گھونگھے ہی نہیں بلکہ بڑے شکاری جاندار جیسے شارک کے دانت بھی تیزابی پانی میں نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سمندری تیزابیت شارک پر پہلے سے زیادہ براہِ راست اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ تحقیق جرنل Frontiers in Marine Science میں شائع ہوئی، جس کے لیے محققین نے جرمنی کے سی لائف اوبرہاؤزن ایکویریم میں 10 بلیک ٹِپ ریف شارکس کے قدرتی طور پر جھڑنے والے 600 دانت جمع کیے۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی کے قریب سمندر میں نایاب شارک کی موجودگی کا انکشاف
ان میں سے کچھ صحت مند اور کچھ جزوی طور پر متاثرہ دانتوں کو منتخب کرکے 8 ہفتے تک 2 الگ 20 لیٹر پانی کے ٹینکوں میں رکھا گیا، جن میں سے ایک کا پی ایچ لیول 8.2 (جو آج کے سمندر کے قریب ہے) اور دوسرے کا 7.3 (جو سال 2300 تک متوقع ہے) رکھا گیا۔
نتائج کے مطابق تیزابی پانی میں رکھے گئے دانتوں میں واضح نقصان سامنے آیا، جن میں دراڑیں، سوراخ، جڑوں کا زیادہ کٹاؤ اور ساختی کمزوری شامل تھی۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو شارک کی خوراک ڈھونڈنے اور ہضم کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔












