نئے صوبوں کی حمایت یا مخالفت: سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

جمعرات 28 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان 4 صوبوں پر مشتمل ملک ہے، جہاں مختلف سیاسی جماعتیں مختلف ادوار میں انتظامی مسائل کے حل کے لیے نئے صوبے بنانے کی بات کرتی رہی ہیں تاہم اب تک اس معاملے پر سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی، حال ہی میں ایک مرتبہ پھر نئے صوبے بنانے کی بحث سامنے آئی ہے، وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ماضی میں نئے صوبے بنانے کی حمایت کر چکے ہیں۔

وی نیوز نے مختلف سیاسی رہنماؤں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سی جماعتیں نئے صوبوں کے حق میں ہیں اور کون سی مخالفت کر رہی ہیں۔

فی الحال ایجنڈے پر نہیں، مسلم لیگ (ن)

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اس وقت نہ ہی حکومت میں اور نہ ہی پارٹی میں نئے صوبوں کے قیام پر کوئی بات ہو رہی ہے، اگر یہ معاملہ آگے بڑھا تو سب سے پہلے اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں انتظامی بہتری کے لیے نئے صوبے بنائے گئے ہیں، پاکستان میں بھی اس پر غور ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جب ملک پہلے ہی کئی بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے، نئے صوبوں کا معاملہ کھولنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

اصل بحث کو گمراہ کیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ نئے صوبوں پر بحث کا اصل مقصد کچھ اور ہے، آئین میں طریقہ کار واضح ہے کہ کسی بھی صوبے کے اندر نئے صوبے بنانے کے لیے سب سے پہلے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت درکار ہے، پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی یہی منظوری ضروری ہے۔

انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ چھوٹے صوبے بنانے اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وسائل کی تقسیم پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ مقامی حکومتیں تاحال فعال نہیں ہوئی ہیں، جب تک بلدیاتی ادارے مضبوط نہیں ہوں گے، نئے صوبے بننے کے باوجود مسائل حل نہیں ہوں گے۔

چھوٹے صوبے برا قدم نہیں، تحریک انصاف

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کے مطابق نئے اور چھوٹے صوبے بنانا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر میں صوبے چھوٹے ہوتے ہیں تو انتظام چلانا آسان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 1985 کے بعد فنڈز ارکانِ اسمبلی کو دینا شروع کیے گئے، جو درست نہیں۔ ’اصل حل بلدیاتی نظام ہے، اگر ویلج کونسلز اور ضلعی نمائندے بااختیار ہوں تو مسائل بہتر طور پر حل ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے سے گریز کرتی ہیں۔‘

غلط وقت پر غلط بحث، جمیعت علما اسلام (ف)

جمیعت علما اسلام (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ موجودہ حالات میں نئے صوبوں کی بات کرنا غلط وقت پر غلط موضوع چھیڑنے کے مترادف ہے، ماضی میں ون یونٹ کے تجربے نے ملک کو نقصان پہنچایا، اسی طرح نئے صوبوں کی بحث بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، لیکن ہر بار آئین میں ترمیم کرنا درست نہیں۔ ’ابھی تو 26ویں ائینی ترمیم پر بھی بہت سی آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں، فی الحال ملک کو دہشت گردی سمیت دیگر بڑے مسائل کا سامنا ہے، اس وقت یہ بحث لسانیت کو ہوا دے سکتی ہے۔‘

انتظامی بہتری کے لیے نئے صوبے ناگزیر، متحدہ قومی موومنٹ

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفیٰ کمال نےوی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت انتظامی بہتری کے لیے چھوٹے صوبوں کی حمایت کرتی ہے، اگر ناموں پر اتفاق نہیں ہوتا تو موجودہ صوبوں کو ہی جنوبی، شمالی یا مغربی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن اختیارات کی منتقلی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبے اتنے بڑے ہیں کہ بلوچستان کے ایک ایم این اے کو اپنے حلقے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں تین دن لگ جاتے ہیں، اسی طرح سندھ کے بعض علاقوں سے چیف سیکریٹری کا دفتر 700 کلومیٹر دور ہے۔ ان کے مطابق ملک کو چلانے کے لیے نئے صوبے بنانا ناگزیر ہے۔

نئے صوبوں کی بحث اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، عوامی نیشنل پارٹی

عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سردار حسین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی نئے صوبوں کی حمایت نہیں کرتی ہے، نئے صوبوں کی بحث کے اغاز کا مقصد اصل مسائل اور اصل موضوعات سے توجہ ہٹانا ہے، پاکستان میں اس وقت نئے صوبوں کے قیام کا تصور ہی نہیں ہے۔

’نئے صوبے قائم کرنا کوئی اتنا آسان نہیں کہ آج بحث ہو اور کل کو صوبوں کی تشکیل ہو جائے،  اے این پی سمجھتی ہے کہ موجودہ صوبوں کے مسائل بھی ابھی زیادہ ہیں اور مالی مشکلات کا بھی سامنا ہے ایسے میں نئے صوبوں کے قیام کے بعد فنڈز کہاں سے آئیں گے نئے صوبے کس طرح چلائے جائیں گے، فی الحال یہ ممکن نہیں ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp