شمالی علاقہ جات میں حالیہ دنوں ہونے والے کلاؤڈ برسٹ اور شدید بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔
اس اچانک اور غیر معمولی بارش کے باعث نہ صرف جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ مقامی آبادی بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ہر کوئی کہتا رہا کہ یہ سب تباہی کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:کلاؤڈ برسٹ: بونیر کے بعد صوابی میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی، متعدد جاں بحق، گھر ڈوب گئے
دوسری جانب محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن فلیش فلڈز کو ’کلاؤڈ برسٹ‘ سے منسوب کیا جا رہا ہے، جبکہ گزشتہ 24 سال سے کلاؤڈ برسٹ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ماہرین کی آرا: تباہی کی اصل وجوہات
ماہرین کے مطابق حالیہ تباہی انتظامی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں اور غیر معمولی گرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔
جبکہ حکومتی سطح پر حفاظتی اقدامات کی کمی بھی صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ مظہر کلاؤڈ برسٹ ہی تھا۔
موسمیاتی سائنسدانوں کی وضاحت
ماہر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر کاشف سالک کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں میں 3 سے 4 بڑے چیلنجز سامنے آئے۔ سب سے بڑا مسئلہ پیش گوئی کا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:آبادی کا کلاؤڈ برسٹ اور ’بے عمل‘ حکومت
پاکستان محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) دونوں کا اچھا سیٹ اپ موجود ہے، لیکن محکمہ موسمیات کے ریڈار سسٹم کی اپنی کچھ حدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ جیسے مظاہر کو مکمل طور پر جانچ نہیں پایا۔
عالمی میڈیا نے تسلیم کیا کہ گلگت بلتستان میں کلاؤڈ برسٹ ہوا، مگر ریڈار سسٹم کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ پہاڑوں کے پیچھے کے حالات نہیں دیکھ سکتا۔ چند مخصوص اسٹیشنز پر یہ مظاہر ریکارڈ نہیں ہو سکے، اسی لیے یہ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی کہ آیا کلاؤڈ برسٹ ہوا ہے یا نہیں۔
انتظامی ناکامی اور شہری منصوبہ بندی
جب پیشگوئی ہی نہیں ہو سکی تو ظاہر ہے کوئی تیاری بھی ممکن نہیں تھی۔ بارش شروع ہونے کے بعد اگرچہ این ڈی ایم اے کے جانب سے ابتدائی انتباہی نظام کے تحت معلومات جاری کی گئیں، لیکن دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ یہ پیغام وہاں کی کمزور برادریوں تک بروقت نہیں پہنچ سکا۔
یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا میں بادل پھٹنے سے تباہی، کیا کلاؤڈ برسٹ روکا جاسکتا ہے؟
تیسرا مسئلہ طویل المدتی نوعیت کا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں بھی تعمیرات کی اجازت دی گئی جہاں نہیں ہونی چاہیے تھی۔
بے قابو اور غیر منصوبہ بند تعمیرات کو روکنے میں ناکامی دراصل شہری منصوبہ بندی کی ایک بڑی ناکامی ہے۔
ماہرین کا انتباہ: مستقبل کے خدشات
کلائمیٹ ایکسپرٹ ڈاکٹر کاشف سالک نے مزید کہا کہ اس برس مون سون کی پیش گوئی 10 سے 15 فیصد زیادہ بارشوں کی تھی، جو کہ خاص طور پر پہاڑی علاقوں کے لیے ایک نمایاں اضافہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ انتظامی ناکامی اور مینجمنٹ ہے، کیونکہ بارش ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔
کلاؤڈ برسٹ کا سائنسی پس منظر
ماہر موسمیات آصف شجاع کے مطابق کلاؤڈ برسٹ اُس وقت ہوتا ہے جب ایک گھنٹے کے اندر 100 ملی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو جائے۔
یہ عموماً پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے، جب گرم اور نم ہوا پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے ٹکراتی ہے اور کیومولونِمبس (Cumulonimbus) بادل زمین سے اٹھنے والی بھاپ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ کشمیر: کشتواڑ میں کلاؤڈ برسٹ سے تباہی، کم از کم 46 افراد ہلاک
نتیجتاً بادل نمی کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتے اور اچانک محدود علاقے پر شدید بارش برساتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سال غیر معمولی ہیٹ ویوز شمالی علاقوں میں ریکارڈ کی گئیں۔ چلاس میں 48.7 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ دیگر علاقوں جیسے ملاکنڈ میں 40 ڈگری سے زائد درجہ حرارت ریکارڈ ہوا۔
اس سے بھاپ اور نمی میں اضافہ ہوا اور کلاؤڈ برسٹ کے لیے ماحول سازگار بنا۔
بارش کا غیر مساوی انداز
ماہرِ موسمیات ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق بارش ایک ایسا عمل ہے جس میں وقت اور جگہ کے لحاظ سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔
مون سون میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک کھیت میں پانی کھڑا ہوتا ہے جبکہ ساتھ والا کھیت خشک رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بونیر میں حالیہ شدید بارش اور سیلاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کلاؤڈ برسٹ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں اور عالمی حدت ہے۔
اس سال مون سون غیر معمولی طور پر طاقتور ہے اور مون سون کی ہوائیں ملاکنڈ کی پہاڑی رینج کو عبور کرتے ہوئے اونچے بادل پیدا کر رہی ہیں، جو محدود علاقوں میں غیر معمولی اور شدید بارش برساتے ہیں۔