طلاق اور علیحدگی کے بدلتے اصول: ’گرے ڈائیورس‘ کا بڑھتا ہوا رجحان

جمعرات 28 اگست 2025
author image

قرۃ العین حیدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سماج کے اصول وقت کے تابع ہیں۔ وقت بدلتا ہے تو اصول بدلتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ بھی بدل جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف خیالات یا نظریات تک محدود نہیں رہتی، بلکہ معاشرتی اکائی یعنی میاں بیوی کے تعلق اور روزمرہ کے طور طریقوں پر بھی اپنا بھرپور اثر ڈالتی ہے۔

کچھ سال پہلے جو الفاظ سننے میں بھی نہیں آتے تھے، آج روز خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ مجھے اپنے دادا اور نانا کا گھر یاد ہے، جہاں مردانہ اور زنانہ حصے الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ میاں بیوی کے مشترکہ بیڈروم کا اُس وقت کوئی تصور نہ تھا۔ ان کی الگ الگ چارپائیاں اور کمرے ہوا کرتے تھے۔ البتہ کھانے کی محفلیں خاندان کو ایک جگہ اکٹھا کر دیتی تھیں۔

یہ مشترکہ خاندانی نظام تھا، نیوکلئیر فیملی سسٹم نہیں۔ یہاں میاں بیوی ایک بڑے خاندان کا حصہ ہوتے، خاندانی رسم و رواج میاں بیوی کے آپسی تعلق سے زیادہ طاقت ور تھے۔ میاں بیوی کی اپنی زندگی یا اپنے فیصلے کی چنداں اہمیت نہ تھی۔ وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں گے، یہ زیادہ تر خاندان بالخصوص اور معاشرہ بالعموم طے کرتا تھا۔

وقت بدلا، اصول بدلے اور ان تغیرات کا اثر خانگی معاملات پر بھی نمایاں ہونے لگا۔ مشترکہ خاندان کمزور ہوا، نیوکلئیر فیملی کو رواج ملا، میاں بیوی کے لیے ایک بیڈروم، ایک اٹیچڈ باتھ روم اور ایک ساتھ وقت گزارنے کا تصور سماج میں اچانک ایک اہم قدر بن گیا۔

لیکن اس باقاعدہ طے شدہ قربت کے باوجود آج معاشرے میں ’گریے ڈائیورس‘(Gray Divorce) کی بازگشت زیادہ سنائی دیتی ہے، یعنی زیادہ عمر میں طلاق یا علیحدگی۔

یہ اصطلاح مغربی معاشروں میں مقبول ہوئی، جہاں اعداد و شمار کے مطابق 50 سال سے زائد عمر کے افراد میں طلاق کی شرح پچھلی چند دہائیوں میں تیزی سے بڑھی ہے۔

پاکستان میں تاریخی طور پر طلاق کی شرح بہت کم رہی ہے، لیکن اب اس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لاہور اور کراچی کی فیملی کورٹس کے باہر بڑھتے ہوئے رش اس تبدیلی کی گواہی دیتے ہیں، جہاں اب صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ ادھیڑ عمر جوڑے بھی طلاق کے کیس فائل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگرچہ خوفِ فسادِ خلق کے باعث میاں بیوی باضابطہ طلاق نہ بھی لیں اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے پر مجبور ہوں، تو اکثر جوڑے الگ الگ کمروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مشترکہ لاؤنج یا تو خانگی جنگ کے میدان میں بدل جاتا ہے یا پھر اسے دونوں فریق خاموش گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ اگرچہ باضابطہ طلاق نہیں لیکن ہم اسے شاید ’سافٹ گریے ڈائیورس‘ کہہ سکتے ہیں۔

یک دم علیحدگی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی طلاق کو ایک داغ یا بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے میاں بیوی کے درمیان رشتہ خرابی کے اس نہج تک پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں وہ آپس میں بات چیت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

اکثر جب بچے گھر سے رخصت ہو جاتے ہیں تو پیدا ہونے والا خالی پن ایک دوسرے کی موجودگی سے پُر نہیں ہو پاتا۔ میاں بیوی کے درمیان نہ کوئی جذباتی تعلق باقی رہتا ہے، نہ فکری رشتہ اور بسا اوقات تو احترام کا رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یوں باقی تعلق صرف گھریلو اخراجات اور معمولی بات چیت تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

ہمارے ہاں شادی کو قائم رکھنے کے 3 بڑے سہارے ہوتے ہیں: بچے، مصروفیات اور سماجی دباؤ۔ جیسے ہی بچے یونیورسٹی، کالج یا ملازمت کے سلسلے میں گھر چھوڑ دیتے ہیں، مصروفیات کم ہونے لگتی ہیں اور سماجی دباؤ کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ تب وہ تمام اختلافات، جو ساری عمر دبے رہے، اچانک کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اس مرحلے پر کئی جوڑے یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی چھت کے نیچے رہ تو سکتے ہیں لیکن پرامن طریقے سے، بغیر زیادہ بات چیت کیے یا محض رسمی گفتگو کے سہارے۔ اس کے برعکس کچھ جوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر حال میں علیحدگی چاہتے ہیں اور بالآخر طلاق کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔

اس رجحان کو سب سے زیادہ تقویت دینے والا عنصر خواتین کی مالی خودمختاری (Financial Independence) ہے۔ ماضی میں خواتین معاشی طور پر مکمل طور پر شوہر پر انحصار کرتی تھیں، اس لیے علیحدگی یا طلاق جیسا فیصلہ اُن کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب جب خواتین اپنے پیروں پر کھڑی ہیں تو وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہیں۔ تعلیم اور روزگار نے عورت کو انفرادیت اور عزتِ نفس کا شعور دیا ہے۔

ہماری نانی اور دادیوں کے دور میں یہ سوچنا بھی ممکن نہ تھا کہ بڑھاپے میں کوئی طلاق لے سکتا ہے یا میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہو سکتی ہے۔ اُس وقت یہ سب کچھ معاشرتی عوامل کے زیرِ اثر تھا، نہ کہ ذاتی انتخاب کے طور پر۔

لیکن آج کی پڑھی لکھی، باشعور اور خود کمانے والی عورت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ کیا وہ اپنی بقیہ عمر شوہر کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے، اکیلے رہنا چاہتی ہے یا اپنی اولاد کے ساتھ۔

یہ عورت اب معاشرے کے اُس فلسفۂ قربانی کے ساتھ نہیں کھڑی جو صرف عورت ہی سے توقع رکھتا تھا۔ آج وہ انفرادیت (Individualism) کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ جہاں اُسے محسوس ہو کہ کسی رشتے میں جذباتی وابستگی باقی نہیں رہی اور یہ رشتہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت کو متاثر کر رہا ہے، وہاں وہ الگ ہو کر اپنی زندگی سکون اور عزت کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔

یوں شادی کا رشتہ اب ایک نئے معنی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صرف سماجی دباؤ، داغ یا برداشت کی بنیاد پر اسے زیادہ دیر قائم رکھنا ممکن نہیں رہا۔ جہاں بھی یہ رشتہ ذہنی سکون اور باہمی احترام کی بنیادوں کو پامال کرتا ہے، وہاں طلاق کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جانے لگا ہے۔

یہی معاملہ مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ وہ بھی عورت کی طرح الگ ہونے کی خواہش رکھ سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملات کو باوقار طریقے سے انجام دیا جائے۔

کسی کو برا لگے شاید، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ عمر کی طلاق اور علیحدگی ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ قبولیت حاصل کر رہی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp