ایران میں 56 سالہ کلثوم اکبری نامی خاتون پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ 22 سال کے دوران اپنے 11 شوہروں کو زہر دے کر قتل کیا تاہم وہ خود اس تعداد سے لاعلم نظر آتی ہیں۔
دوران تفتیش انہوں نے حیران کن انداز میں کہا کہ ’جھے یاد نہیں کتنے لوگوں کو مارا، شاید 13 یا 15 ہوں‘۔
یہ بھی پڑھیں: شوہر کو کیسے قتل کیا جائے؟ بھارتی خاتون نے یوٹیوب سے طریقہ سیکھ کر ’کامیاب واردات’ کر ڈالی
ایرانی میڈیا کے مطابق کلثوم اکبری پر الزام ہے کہ وہ عمر رسیدہ اور تنہا مردوں سے شادی کرتی تھیں اور کچھ ہی عرصے بعد انہیں زہریلی ادویات، نشہ آور گولیاں، ذیابیطس کی دوائیں، صنعتی الکحل کھلا کر یا تکیے سے دم گھوٹ کر جان سے مار دیتی تھیں۔
یہ وارداتیں مختلف شہروں میں کی گئیں تاکہ کسی ایک جگہ شک نہ ہو۔ مردوں کی موت کو عموماً ان کی عمر یا بیماری کی وجہ سے قدرتی سمجھا جاتا رہا۔
قتل کا یہ سلسلہ مہم سال سنہ 2000 میں شروع ہوا اور سنہ 2023 میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب کلثوم کے آخری شوہر 82 سالہ غلام رضا بابائی کی موت کے بعد ان کے بیٹے کو شک ہوا۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس کی اپنی والدہ کو بھی کبھی ایک عورت نے زہر دینے کی کوشش کی تھی اور جب بیٹے نے کلثوم کو دیکھا تو وہ0 وہی خاتون نکلیں۔
مزید پڑھیے: سکھر: گھریلو ناچاقی پر بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
پولیس تفتیش کے بعد کلثوم نے اعتراف جرم کر لیا اگرچہ اب بھی وہ ہر بار مختلف تعداد بتاتی ہیں۔ مقتولین میں سے کچھ لوگوں کے نام معلوم ہوئے ہیں۔ میر احمد عمرانی (69 سال) شادی کے ایک ماہ بعد مارے گئے، اسماعیل بخشی (62) 2 ماہ بعد قتل کیے گئے، گنج علی حمزائی (83) شادی کے 43 دن بعد ماردیے گئے۔
ایک شوہر مسیح نعمتی زہر سے بچ نکلے تھے مگر پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے انہوں نے صرف خاتون کو گھر سے نکال دیا تھا۔
خاتون نے یہ قتل کیوں کیے؟
استغاثہ کے مطابق ملزمہ نے شادی کے ذریعے ملنے والی جائیداد، رقم اور زیورات کے لیے قتل کیے اور زیادہ تر مال اپنی بیٹی کے نام پر منتقل کیا۔
کلثوم اکبری پر 11 افراد کے جان بوجھ کر قتل اور ایک قتل کی کوشش کا مقدمہ چل رہا ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے 45 سے زائد ورثا نے عدالت سے انصاف کی اپیل کی ہے۔
اگر وہ مجرم قرار پائیں تو ان کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارتی خاتون نے سرکاری نوکری ہتھیانے کے لیے شوہر کو قتل کردیا
یہ کیس نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں سنسنی کا باعث بنا ہے۔ ایک ہی خاتون کا اتنے منظم انداز میں کئی برسوں تک وارداتیں کرنا اور اتنی دیر تک بچے رہنا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معاشرتی ڈھانچے کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ اس کیس میں خاتون کا نفسیاتی تجزیہ بھی اہم ہو گا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا یہ محض دولت کے حصول کے لیے تھا یا کسی ذہنی مسئلے کا نتیجہ تھا۔














