بھارت کے دریائے راوی پر قائم مادھوپور ہیڈ ورکس کی خرابی کے باعث پاکستان کے زیریں علاقوں خصوصاً لاہور میں شدید اور مسلسل سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پنجاب شدید سیلاب کی لپیٹ میں، متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں تیز
انگریزی اخبار میں شائع منور حسن کی رپورٹ کے مطابق، بھارت نے نہ تو پاکستان کو بروقت آگاہ کیا اور نہ ہی راوی ہیڈ ورکس کے تکنیکی مسئلے کے بارے میں حکام کو اطلاع دی۔
پانی کی غیر متوقع چھوڑائی
رپورٹس کے مطابق مادھوپور ہیڈ ورکس کے چار فلڈ گیٹس اچانک ناکام ہو گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں دیہات زیرِ آب آگئے اور وسیع زرعی رقبہ ڈوب گیا۔
Just IN:— Massive floods create havoc in Pakistani Punjab region. Thousands of people rendered homeless. pic.twitter.com/WMHAKcbUse
— South Asia Index (@SouthAsiaIndex) August 27, 2025
کئی دہائیوں کی غفلت کے باعث ہیڈ ورکس کے 54 فلڈ گیٹس میں بمشکل کوئی جدید اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔
لاہور میں بڑے پیمانے پر تباہی
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دریائے راوی میں پانی کی مقدار شاہدرہ کے مقام پر 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک تک پہنچ گئی، جس نے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا اور کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے۔
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق جمعرات کی شب تک غیر معمولی بلند سطح کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:سیلاب سے سندھ کے 15 اضلاع متاثر ہوں گے، ڈی جی پی ڈی ایم اے
حکام کا کہنا ہے کہ یہ بحران بھارت کے مادھوپور ہیڈ ورکس سے قابو سے باہر پانی کے اخراج کا نتیجہ ہے جس نے لاہور کے رہائشیوں کے لیے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیا۔
بھارتی حکام کی تنقید
مقامی بھارتی حکام نے بھی اس کو ’انتہائی غفلت‘ قرار دیا اور کہا کہ دیکھ بھال پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود مرمت نہایت تاخیر کا شکار ہے اور اسے صرف پانی اترنے کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔
لاہور سمیت مختلف اضلاع کے دریاؤں میں طغیانی، پنجاب پولیس کاریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن مسلسل جاری
لاہور سمیت سیلاب سے متاثرہ مختلف اضلاع میں 15 ہزار سے زائد پولیس افسران و اہلکار ریسکیو آپریشن میں مصروف pic.twitter.com/1lGc0wJ1Xr
— Government of Punjab (@GovtofPunjabPK) August 28, 2025
موجودہ صورتحال میں 55 ہزار کیوسک پانی پاکستان میں داخل ہو رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ اور مستقبل کے خدشات
سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ بروقت سیلابی ڈیٹا کا تبادلہ کریں تاکہ نقصانات سے بچا جا سکے۔
اس بحران نے ایک بار پھر اس معاہدے پر سختی سے عملدرآمد اور موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
مزید بارشوں کی پیشگوئی کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان فوری مذاکرات ناگزیر ہیں۔














