پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں لیکن یہ پانی ممکنہ طور پر 2 ستمبر کو سندھ میں داخل ہو جائے گا، پنجاب کی صورت حال دیکھ کر سندھ میں پریشانی پائی جاتی ہے کیوں کہ 2010 کا سیلاب ہو یا 2022 کا، اس نے نہ صرف سندھ میں تباہی مچائی تھی بلکہ اس کے متاثرین کی مکمل بحالی اب تک نہیں ہو پائی۔
ممکنہ سیلاب کے پیش نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک بار پھر 2010 اور 2022 والی صورتحال پیدا ہوجائے گی یا پھر صورت حال اس سے بہتر یا بدتر ہوگی، سندھ میں سیلابی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ماہرین حفاظتی انتظامات کو دیکھ کر اور سیلاب کا دریاؤں کے راستے سفر کرنے پر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں لیکن پھر بھی اگر کوئی بند ٹوٹ جاتا ہے یا پانی دریا سے نکل کر زمین کا رخ کرتا ہے تو کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے: شانگلہ: سیلاب میں چرواہے کی قربانی، ہاتھ کٹ گیا مگر 8 افراد کو بچا لیا
جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اسپیشلسٹ عائشہ عزیز کا کہنا ہے کہ ہمارا کام سیلاب یا قدرتی آفات پر نظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ہمیں کسی علاقے کے بارے میں سگنلز ملیں تو ہم اس علاقے میں فوری اقدامات اٹھاتے ہیں تا کہ نقصانات کم سے کم ہوں اس سارے معاملے میں دیگر ادارے حکومت کی سرپرستی میں آن بورڈ ہوتے ہیں۔
عائشہ عزیز کے مطابق اس وقت سندھ میں بارش کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں لیکن پنجاب میں بارشیں ہیں، بارشوں کی شدت اتنی نہیں لیکن سیلاب کی شدت زیادہ ہے ان کا کہنا ہے کہ 2 ستمبر تک یہ سیلاب گڈو بیراج تک پہنچ جائے گا جس کی ہم مکمل مانیٹرنگ کر رہے ہیں گڈو بیراج پر جب یہ سیلاب پہنچے گا اس سے ہم اندازہ لگا پائیں گے کہ اس سیلاب کی سندھ میں کیا شدت ہوگی۔
عائشہ عزیز کے مطابق اس وقت بھارت پر بارش کے بادل ہیں جس کی وجہ سے وہاں سیلابی صورت حال ہے اور وہی پانی وہاں سے پاکستان کے پنجاب میں داخل ہو رہا ہے۔
عائشہ عزیز کے مطابق اگر ہمیں سکرین پر کوئی ڈیویلپمنٹ نظر آتی ہے تو سب سے پہلے ہم مختلف چینلز استعمال کرتے ہیں جیسے کہ پی ٹی اے سے رابطہ کیا جاتا ہے جو ایس ایم ایس کے ذریعے متعلقہ علاقوں میں پیغامات پہنچا دیتا ہے، دوسرا ہم ڈسٹرک انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں جو مساجد میں اعلانات کراتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: کل سے ملک کے کن علاقوں میں دوبارہ بارشیں ہوں گی؟ این ڈی ایم اے نے بتا دیا
ان کا کہنا تھا کہ اہم شاہراہیں چوں کہ سطح زمین سے بلند ہوتی ہیں تو وہاں پانی یا تو ہوتا نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو اتنا ہوتا ہے جس سے گاڑی گزر سکے یہاں تک کہ 2010 کے سیلاب میں شہریوں نے شاہراہوں پر ہی پناہ لی تھی کیوں اس وقت زمین پانی کی لپیٹ میں تھی اور خشک جگہ صرف سڑکوں پر ملی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب کا راستہ دریا ہے اور دریائی گزرگاہوں میں 12 لاکھ کیوسک پانی گزارنے کی گنجائش موجود ہے جو اس سیلابی پانی سے کئی زیادہ ہے، 2022 میں ہم نے دیکھا تھا کہ بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشوں نے سندھ کو اپنے لپیٹ میں لے کیا تھا لیکن ایسا اس بار نظر نہیں آرہا۔ اس وقت امکان یہی ہے کہ سیلابی ریلا دریاؤں سے ہوتا ہو سمندر میں داخل ہو جائے گا کیوں کہ بند مضبوط بھی ہیں اور اونچے بھی کردیے گئے ہیں۔