پاکستان میں ہوا بازی کی صنعت ہمیشہ سے ہی بحث کا موضوع رہی ہے۔ قومی ایئرلائن، سول ایوی ایشن اتھارٹی(CAA)، اور نجی ایئرلائنز کے درمیان تعلقات، حکومتی پالیسیوں کا تسلسل، اور بیرونی ایئرلائنز کے اثرات نے اس طاقتور شعبے کو ایک پیچیدہ صورتِ حال میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے: کیا واقعی قومی ایوی ایشن پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے؟
:پالیسی کا پس منظر
پاکستان کی پہلی جدید قومی ایوی ایشن پالیسی 2015 میں اُس وقت کے وزیرِاعظم کے مشیر برائے ہوا بازی شجاعت عظیم کی قیادت میں مرتب کی گئی۔
اس پالیسی کا مقصد ملکی ہوا بازی کو عالمی معیار تک پہنچانا، قومی و نجی ایئرلائنز کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنا، سیاحت کو فروغ دینا اور پاکستان کو خطے میں ایوی ایشن ہب کے طور پر ابھارنا تھا۔
اس وقت کی ایوی ایشن ڈویژن کا دعویٰ تھا کہ اس پالیسی کی تیاری میں CAA، PIA، نجی ایئرلائنز، گراؤنڈ ہینڈلنگ ایجنسیاں اور دیگر ادارے شامل تھے، حتیٰ کہ عالمی تنظیموں جیسےIATA ، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) سے بھی مشاورت کی گئی۔
اس سب کے باوجود یہ پالیسی شدید تنقید کا نشانہ کیوں بنی؟
ماہرین کی رائے اور بنیادی خامیاں
ہوا بازی ماہرین کے مطابق اس پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے ایسے وقت نافذ کیا گیا، جب قومی ایئرلائن (PIA) مالی و انتظامی طور پر نہایت کمزور تھی۔
اوپن اسکائی کے اصول کے تحت غیر ملکی ایئرلائنز کو بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ثانوی شہروں میں بھی وسیع رسائی دے دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسافروں کو وقتی سہولت تو ملی، مگر مقامی ایئرلائنز کا مارکیٹ شیئر تیزی سے کم ہوتا گیا۔
کپتان جمیل جیسے ماہرین کہتے ہیں کہ پالیسی میں قومی ایئرلائن کے لیے کوئی محفوظ راستے متعین نہیں کیے گئے۔ یوں ملکی ریونیو کا بڑا حصہ خلیجی اور یورپی ایئرلائنز کو چلا گیا۔
تیمور، ایک اور ماہر کے مطابق، پالیسی کامیاب ہو سکتی تھی اگر پہلے PIA کو انتظامی اور مالی طور پر مضبوط بنایا جاتا۔
قانونی و پالیسی پہلو:
سول ایوی ایشن کے سابق قانونی مشیر محمد علی کے مطابق پاکستان میں پالیسیاں اکثر DOs اور DON’Ts کی فہرست کے طور پر لکھی جاتی ہیں۔
ایوی ایشن پالیسی بھی ایک مقالہ نما دستاویز تھی جس میں عملی نفاذ کی حکمت عملی کمزور تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ مجموعی پالیسی کے بجائے ان حصوں پر نظرثانی کرے جو براہِ راست قومی کیریئر اور سماجی و اقتصادی روٹس کو متاثر کر رہے ہیں۔
پالیسی کے مثبت پہلو:
- سرمایہ کاری اور مارکیٹ کھولنے کا اعلان۔
- نجی ایئرلائنز کی حوصلہ افزائی۔
- ICAO معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات کی شروعات۔
- چند ایئرپورٹس پر سہولیات میں بہتری۔
- پسماندہ علاقوں کے لیے روٹس کا ذکر.
پالیسی کی کمزوریاں:
- سول ایوی ایشن اتھارٹی میں سیاسی مداخلت اور کمزور عملداری۔
- مقامی ایئرلائنز کو تیار کیے بغیر مارکیٹ کھول دینا۔
3۔ PIA میں بدانتظامی اور قیادت کی بار بار تبدیلی۔
- غیر منافع بخش روٹس پر کوئی پائیدار حکمت عملی نہ دینا۔
- قومی ایوی ایشن پالیسی اس پہلو پر بھی خاموش ہے کہ اگر حکومت PIA کی نجکاری کر دیتی ہے تو سماجی و اقتصادی روٹس (جیسے اسکردو وغیرہ) کا مستقبل کیا ہوگا، کیونکہ نجی ایئرلائنز صرف موسمِ گرما میں منافع بخش پروازیں چلاتی ہیں اور سردیوں میں خدمات بند کر دیتی ہیں، جبکہ سال بھر یہ ذمہ داری صرف قومی ایئرلائن ہی نبھاتی ہے۔
غیر ملکی ایئرلائنز کا فائدہ، ملکی نقصان:
خلیجی ایئرلائنز نے اپنے حب کے ذریعے پاکستان-یورپ اور پاکستان-امریکہ روٹس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یورپی ایئرلائنز نے کوڈ شیئرنگ سے اپنی موجودگی برقرار رکھی۔
ان ایئرلائنز کو ریاستی سبسڈی اور عالمی معیار کی سروس کی پشت پناہی حاصل تھی، جبکہ پاکستان کے پاس نہ تجارتی حفاظتی اقدامات تھے اور نہ ہی مضبوط قومی کیریئر۔
اصلاحاتی تجاویز:
- مرحلہ وار نفاذ —
پہلے مقامی ایئرلائنز کو مستحکم کریں، پھر اوپن اسکائی کھولیں۔
- حفاظتی شقیں — منافع بخش روٹس پر قومی ایئرلائن کا کم از کم حصہ محفوظ کیا جائے۔
- سرمایہ کاری اور سبسڈی — بیڑے کی اپ گریڈیشن، MRO اور تربیت کے لیے حکومتی سرمایہ کاری۔
- دو طرفہ معاہدوں میں توازن — مساوی مواقع والے معاہدے کیے جائیں۔
- پالیسی کا باقاعدہ جائزہ — ہر دو سال بعد ماہرین کا بورڈ پالیسی کا تجزیہ کرے۔
PCAA.6کی خودمختاری — سول ایوی ایشن کو سیاسی اثر سے آزاد ریگولیٹری نظام کے تحت لایا جائے۔
- صارف کے حقوق — تاخیر، منسوخی اور ریفنڈ کے واضح قوانین وضع کیے جائیں۔
- سماجی و اقتصادی روٹس کے لیے ضمانت — اگر PIA نجکاری کے عمل سے گزرتی ہے تو ان روٹس پر حکومت سبسڈی اور باقاعدہ ریگولیشن کے ذریعے پروازوں کی تسلسل یقینی بنائے۔
پاکستان کی قومی ایوی ایشن پالیسی کا وژن اگرچہ درست سمت میں تھا، مگر عملی نفاذ کمزور ثابت ہوا۔ اس پالیسی نے غیر ملکی ایئرلائنز کو فائدہ پہنچایا اور قومی ایئرلائنز کو نقصان۔ آئندہ پالیسی میں خلیجی اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح قومی صنعت کے تحفظ اور عالمی مسابقت دونوں کو متوازن رکھنا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر پاکستان صرف مسافر برآمد کرنے والا ملک بن جائے گا اور اپنی ہوا بازی کی صنعت کو کبھی مستحکم نہیں کر پائے گا.
سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) کے سابق ڈائریکٹر اور ایوی ایشن ٹریننگ انسٹیٹیوٹ حیدرآباد کے وزیٹنگ پروفیسر جناب افسر ملک نے موجودہ قومی ایوی ایشن پالیسی کو ’کاغذ کا ایک ٹکڑا جس کے پیچھے کوئی عملدرآمدی قوت نہیں‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی 2024 کی پالیسی کو ایئرلائنز کے بجائے عوامی مفاد کے مطابق تشکیل دیا جانا چاہیےتھا، کیونکہ ہمیشہ ناقص پالیسی کا بوجھ آخرکار عوام پر ہی پڑتا ہے۔ ’ایئرلائنز آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر وہ عوامی مفاد کا احترام نہ کریں اور اپنے آپریشن بند کر دیں۔ لیکن اگر عوام ہی موجود نہ ہوں تو پھر ایوی ایشن کس مقصد کے لیے چلے گی؟‘ انہوں نے سوال اٹھایا۔
افسر ملک نے زور دیا کہ ریگولیٹر کو آزاد اور بااختیار ہونا چاہیے تاکہ پالیسی پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کرایا جا سکے۔ ان کے مطابق آپریٹرز بہت طاقتور ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان پر کوئی چیک یا سزا عائد نہ ہو سکے، جس سے ایوی ایشن سیکٹر میں احتساب کمزور ہو جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر قومی ایوی ایشن پالیسی کو عوامی ضرورتوں اور جدید تقاضوں کے مطابق فوری طور پر اصلاحات کے ذریعے مضبوط نہ بنایا گیا تو پاکستان کا فضائی شعبہ مزید بحران کا شکار ہو جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز — حکومتی ادارے، قومی و نجی ایئرلائنز، سول ایوی ایشن، اور بین الاقوامی ماہرین — کو اعتماد میں لے کر ایک نئی یا ترمیم شدہ پالیسی مرتب کی جائے جو قومی مفاد، مسافروں کے حقوق اور خطے میں پاکستان کے اسٹریٹجک کردار تینوں کو ساتھ لے کر چلے۔
تحریر: عبید الرحمٰن عباسی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔