وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے حال ہی میں کہا گیا ہے کہ ہم ملک میں مزید ڈیموں کی تعمیر کریں گے تاکہ سیلابی نقصانات پر قابو پایا جا سکے اور آنے والی نسلوں کے لیے پانی کو محفوظ بنایا جائے۔
حکومت کا یہ مؤقف اپنی جگہ اہم ضرور ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں ڈیمز کی تعمیر واقعی ممکن ہے، اور اگر ہاں، تو ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں کون سی ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے ملک میں نئے ڈیم بنانے کی حکمت عملی طے کرلی، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
ماہرین کے مطابق ڈیمز بنانا بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس کے ساتھ ان کے ڈیزائن، مینٹیننس اور پانی کی منصفانہ تقسیم جیسے پہلو زیادہ پیچیدہ اور چیلنجنگ ہیں۔
کیا حکومت کالا باغ ڈیم جیسے متنازع منصوبے کی بات کررہی ہے؟
وزیراعظم کے حالیہ خطاب کے بارے میں ماہرِ توانائی و ماحولیات ڈاکٹر کاشف سالک کا کہنا ہے کہ یہ بیان اپنی جگہ خوش آئند ضرور ہے کیونکہ پاکستان کو واقعی ڈیموں کی شدید ضرورت ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حکومت جن مزید ڈیمز کی بات کررہی ہے، وہ کالاباغ جیسے پرانے متنازع منصوبے کی طرف اشارہ ہے یا بالکل نئے ڈیمز کی تعمیر کی طرف؟
ان کے مطابق ڈیمز کے حوالے سے جتنی بھی جدید ٹیکنالوجیز دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں، وہ پاکستان کو بھی اپنانی چاہییں۔
ڈاکٹر کاشف کے مطابق ڈیمز لانگ ٹرم منصوبے ہوتے ہیں، جن کے لیے باقاعدہ ڈیزائننگ، فزیبلیٹی اسٹڈیز، مالی وسائل اور کئی سالوں پر محیط منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے۔ اس لیے اگر حکومت واقعی ڈیمز تعمیر کرنے کے فیصلے پر سنجیدہ ہے تو اسے ساتھ ساتھ شارٹ اور میڈیم ٹرم اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر پوٹھوہار ریجن یا پنجاب کے کچھ حصوں جیسے چنیوٹ وغیرہ میں منی ڈیمز تعمیر ہو سکتے ہیں، جو درمیانی مدت کے حل فراہم کریں گے۔ جبکہ فوری ضرورت عوامی آگاہی اور بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے اقدامات کی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف بیان کی حد تک دیکھا جائے تو یہ یقیناً ایک مثبت بات ہے، لیکن اصل امتحان اس بیان پر عملدرآمد ہے۔
’ماضی میں بھی ڈیم بنانے کے اعلانات ہوئے مگر عملدرآمد نہ ہوسکا‘
ان کے مطابق حکومت اس وقت ایک شدید بحران یعنی حالیہ سیلابی صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے، اور اکثر ایسے وقت میں حکومت کی جانب سے ’ریلیف دینے والے بیانات‘ سامنے آتے ہیں تاکہ وقتی دباؤ کم کیا جا سکے۔
ڈاکٹر کاشف نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی ایسے اعلانات ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے فنڈز بھی قائم کیے، عوام اور اداروں سے پیسہ بھی جمع ہوا، لیکن عملاً کوئی بڑا ڈیم زمین پر نظر نہیں آیا۔
ان کے مطابق پاکستان میں ڈیمز کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹیں سیاسی اختلافات، صوبائی تنازعات، بڑے پیمانے پر درکار سرمایہ کاری کا فقدان، ادارہ جاتی کمزوری اور پالیسیوں میں عدم تسلسل ہیں۔
ان کے بقول ماضی کے کئی منصوبے یا تو سیاست کی نذر ہوگئے یا پھر فنڈز کی کمی کی وجہ سے رک گئے۔ مزید یہ کہ پہلے سے موجود چھوٹے ڈیم مینٹیننس نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ صرف ڈیمز بنانا کافی نہیں بلکہ ان کے لیے ایک پائیدار نظامِ دیکھ بھال اور فنڈنگ کا تسلسل بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
’بڑے ڈیمز پاکستان کے لیے کوئی پائیدار حل نہیں‘
ماہر شہری منصوبہ بندی و ماحولیاتیات محمد توحید کا کہنا ہے کہ بڑے ڈیمز پاکستان کے لیے کوئی پائیدار حل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اگر دریائے سندھ کے بہاؤ کو مزید کم کیا گیا تو اس سے سندھ کے ڈیلٹا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، کیونکہ سمندر کا کھارا پانی اندرونِ زمین آئے گا، زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ماہی گیری کا نظام شدید متاثر ہوگا۔
ان کے مطابق اصل ضرورت بڑے ڈیمز کی تعمیر نہیں بلکہ موجودہ پانی کے ضیاع کو روکنا، نہری نظام کی مرمت، بارش کے پانی کے چھوٹے چھوٹے ذخائر بنانا اور پانی کی منصفانہ تقسیم ہے۔
انہوں نے کہاکہ سندھ کے ڈیلٹا کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ دریا کا قدرتی بہاؤ سمندر تک پہنچے، ورنہ ڈیلٹا مزید سکڑ جائے گا۔ مزید یہ کہ ملک میں جو ڈیم پہلے سے موجود ہیں، جیسے تربیلا اور منگلا، ان کی اسٹوریج کپیسٹی مسلسل سِلٹیشن (مٹی بھرنے) کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی اصل افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔
’دریائے سندھ میں غیریقینی صورت حال پیدا ہو چکی ہے‘
محمد توحید نے خبردار کیاکہ دریائے سندھ کے بہاؤ میں موسمیاتی تبدیلی اور گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی ہے، اس لیے مستقبل میں پانی کے بہاؤ کو پہلے سے کم اور غیر متوقع سمجھا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق ڈیمز کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف مالیاتی، سائنسی یا ماحولیاتی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ کیونکہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پہلے ہی ایک حساس معاملہ ہے اور سیاسی اختلافات ان منصوبوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔
ماہرِ ماحولیات محمد عثمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ڈیمز کی تعمیر بذاتِ خود مسئلے کا حل نہیں، اصل چیلنج ان کی کپیسیٹی، ڈویژن (پانی کی تقسیم) اور باقاعدہ مینٹیننس ہے۔
ان کے مطابق دنیا میں اب پانی کے انتظام (water management) کا رجحان بدل رہا ہے۔ جدید ریسرچ یہ ظاہر کرتی ہے کہ بڑے ڈیمز تقریباً 60 سے 70 فیصد تک سیلابی صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں، جبکہ چھوٹے ڈیمز کی مؤثریت بمشکل 20 فیصد تک رہتی ہے۔
’وہ بھی اسی وقت جب یہ ڈیمز مکمل طور پر مینٹین ہوں اور ان کے اخراجِ آب (channelization) کے نظام درست طور پر کام کر رہے ہوں۔ بصورتِ دیگر یہ خود تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کیونکہ اگر ڈیم اپنی صلاحیت سے زیادہ پانی ذخیرہ کرے اور نکاسی کا مؤثر نظام نہ ہو تو بند ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔‘
’صرف ڈیم بنا کر چھوڑ دینا کسی مسئلے کا حل نہیں‘
محمد عثمان کے مطابق اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ڈیم بنائے جائیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم ان کی مینٹیننس، چینلائزیشن اور ڈویژن کنٹرول کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ ’ڈیم بنا کر چھوڑ دینا حل نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں، مثال کے طور پر اگر بارش یا برف باری کے نتیجے میں ڈیم کی صلاحیت سے زیادہ پانی آجائے تو وہ لازمی طور پر خارج کرنا پڑے گا، اور اگر اس کے اخراج کا کوئی محفوظ راستہ نہ بنایا گیا ہو تو یہی پانی بڑے پیمانے پر سیلاب اور نقصانات کا سبب بنے گا۔
’جدید دنیا میں پانی کے انتظام کے متبادل حل بھی تلاش کیے جا رہے ہیں‘
ان کے مطابق جدید دنیا میں پانی کے انتظام کے متبادل حل بھی تلاش کیے جا رہے ہیں، جیسے کہ انڈرگراؤنڈ واٹر ٹیبل کو ری چارج کرنا، تاکہ بارش کا پانی زمین میں جذب ہو اور قدرتی ذخائر میں اضافہ ہو۔ اس طریقے کو زیادہ مؤثر اور پائیدار سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’معاشی خود انحصاری کا انحصار پانی و توانائی کے ذخائر پر ہے‘، وزیراعظم کا دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تکمیل کا حکم
اس پس منظر میں اگرچہ ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے، لیکن اصل مسئلہ محض ڈیمز نہ بننا نہیں بلکہ ان کی پائیدار منصوبہ بندی، مسلسل دیکھ بھال اور متبادل نظام کی عدم موجودگی ہے۔ حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ بنیادی سوال ہونا چاہیے کہ ہم کتنے مؤثر اور محفوظ طریقے سے ان ڈیمز کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟