کیا نیدرلینڈ ماڈل ہمیں سیلاب سے بچا سکتا ہے؟

اتوار 31 اگست 2025
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کل مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بعض آبی ماہرین نیدرلینڈ (ہالینڈ)کے فلڈ ماڈل کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو نیدرلینڈ ماڈل پر عملدرآمد کرکے بچایا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے ڈنمارک کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ ڈنمارک نے بھی نیدرلینڈ کا ماڈل فالو کرکے اپنے ملک کو سیلاب اور پانی کی تباہ کاری سے محفوظ بنایا ہے۔

مزید بات کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ نیدرلینڈ ماڈل ہے کیا؟مگر اس سے بھی پہلے چند سطریں نیدرلینڈ کے بارے میں۔

نیدرلینڈ (ہالینڈ) شمال مغربی یورپ کا ایک اہم مگر قدرے چھوٹا ملک ہے۔ ایمسٹرڈیم اس کا دارالحکومت ہے، یہ خوبصورت ملک اپنے حسین مناظر، دلکش ٹیولپ پھول، نہروں، ونڈملز (ہوائی چکی) اور سائیکلنگ روٹس کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہم پاکستانی تو ہاکی ٹیم کی وجہ سے بھی انہیں جانتے ہیں، کئی اہم ٹورنامنٹ ہم ان سے ہارے اور ایک ورلڈ کپ فائنل ان سے جیتے جب شہباز سینئر کپتان تھا۔ ان کی فٹ بال ٹیم بھی مشہور ہے، کئی بڑے فٹ بالر پیدا کیے۔ زبان ڈچ ہے، ڈچ لٹریچر بھی خاصا زرخیز ہے۔

نیدرلینڈ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے، رقبہ بھی بہت زیادہ نہیں، یہاں اکثر سمندری طوفان آتے رہتے ہیں، ان سے ماضی میں بہت تباہ مچی، مگر پھر نیدرلینڈ کی حکومتوں نے آبی ماہرین اکھٹے کرکے ایک ایسا شاندار پلان بنایا، جس پر عمل درآمد کرکے اب اس حسین یورپی ملک کو بڑی حد تک سیلاب اور پانی کی تباہ کاری سے محفوظ بنا دیا گیا۔

نیدرلینڈ ماڈل
نیدرلینڈ ماڈل چار نکات پر استوار ہے:

1: بڑے بند(Dikes) اور پالڈرز یعنی سمندر سے لی گئی زمین (Polder)

بند سے ہم سب واقف ہیں، ہمارے ہاں بھی دریاؤں کے کناروں پر بند باندھے جاتے ہیں تاکہ طغیانی آئے تو پانی روکا جا سکے۔ پالڈرز سے مراد وہ زمین ہے جسے دیواریں لگا کر ایک طرح سے پانی سے چھین لیا جاتا ہے اور پھر پمپس کے ذریعے اسے خشک کرتے ہیں۔ نیدرلینڈ کا رقبہ چونکہ زیادہ ہے، اس لیے منظم پلاننگ کے تحت انہوں نے اچھا خاصا علاقہ سمندر سے لے کر اسے زمین کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہ کام بڑے سائنٹفک انداز میں کیا گیا۔

2: ڈیلٹا ورکس(Delta Works)

یہ ایک عظیم الشان فلڈ پروٹیکشن اسٹریکچر ہے، جو کئی ڈیمز، پانی روکنے والی بڑی دیواروں، شدید طوفان کو روکنے والے دیوہیکل ٹھوس فولادی گیٹ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بذات خود انجینئرنگ کا شاہکار ہے اور اسے جدید دنیا کے عجائبات میں شامل کیا جاتا ہے۔ گوگل کرکے اس کی مزید تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے۔ بعض گیٹ فرانس کے مشہور آئفل ٹاور جتنے اونچے ہیں اور وہ سمندر میں 3 میٹر تک اونچی لہر آنے پر آٹومیٹک طور پر بند ہوجاتے ہیں۔ سمندری طوفان روک کر بندرگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1953 میں ایک بہت بڑے سمندری طوفان(North Sea Flood) میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کے بعد نیدرلینڈ نے یہ دنیا کا سب سے بڑا فلڈ پروٹیکشن پروگرام شروع کیا۔

3: پانی کو جگہ دینا

اس تصور کے تحت کوشش کی گئی کہ صرف اونچے بند بنانا کافی نہیں اور صرف پانی سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اسے جگہ بھی دینی ہے۔ اس لیے منصوبہ بنا کر دریاؤں کے کنارے پھیلائے گئے، کھلے میدان اور پارکس فلڈ بفرز(flood buffers) بنائے گئے،کچھ رقبے پر کاشت کاری ختم کرکے وہاں سیلابی پانی کے لیے کھلے میدان بنا دئیے گئے۔ شہروں کے اندر “water squares” بنائے گئے۔ جہاں عام دنوں میں لوگ کھیلتے ہیں، اور بارش میں وہ پانی جمع کر لیتے ہیں۔

4: شہر اور سماج کو پانی کے ساتھ مکس کردیا گیا

اسے شہری زندگی کا حصہ بنایا گیا۔ بند (dikes) صرف دیواریں نہیں بلکہ ان پر سڑکیں، سائیکل ٹریکس اور رہائشی علاقے بنائے گئے۔ مقامی کمیونیٹیز کو واٹر مینجمنٹ میں شریک کیا گیا تاکہ سب ذمہ داری لیں۔ ہر شہری واٹر ٹیکس دیتا ہے جو صرف پانی کے تحفظ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

کیا پاکستان میں یہ ماڈل کارآمد ہے؟

بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے، اس کی ہمارے ہاں جزوی افادیت ہوسکتی ہے، پندرہ بیس فیصد، اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوے پچانوے فیصد سیلاب بارشوں ، گلیشیر پگھلنے یا بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے سے آتے ہیں۔ ان کا سمندری طوفانوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس لیے ان کی مینجمنٹ بھی مختلف ہوگی۔ ویسے بھی ہمارے بہت سے علاقے سطح سمندر سے اونچے ہیں، ہمارے کراچی جیسے شہر جو سمندر کنارے آباد ہیں، وہاں بھی الحمدللہ شہر کو نقصان پہنچانے والے سمندری طوفان نہیں آتے۔

ہمارے ہاں ماضی میں زیادہ تر دریائے سندھ کے سیلاب خطرناک اور تباہ کن رہے ہیں۔ ان کا تدارک بڑے ڈیم بنانا ہے تاکہ زیادہ پانی کو روکا جا سکے یا پھر پانی کے راستوں کو کھلا رکھنا اور وہاں تعمیرات وغیرہ ہٹانا ہے تاکہ پانی وہاں پھیل جائے، مٹی میں جذب ہو اور شہری آبادیوں کا رخ نہ کرے۔
سیلاب کی دوسری صورت میں شدید بارشوں کا پانی جمع ہو کر اربن فلڈنگ کی صورت اختیار کرتا ہے، پہاڑی علاقوں میں کلاوڈ برسٹ ہونے سے چھوٹے سیلابی ریلے آئے جیسے تین ہفتے قبل بونیر اور شانگلہ وغیرہ میں آئے۔ یا پھر پہاڑوں سے گرنے والا رود کوہی کا تیز رفتار ریلاتباہی مچاتا ہے جیسے دو تین سال پہلے تونسہ، راجن پور وغیرہ میں نقصان ہوا۔

تیسری صورت وہی ہے جو آج کل پنجاب میں چل رہی ہے۔ بھارت سے آنے والے دریا راوی، ستلج، چناب میں پانی کے سیلابی ریلے آنے سے ہمارے بیراج شدید دباؤ میں آگئے، شہر بچانے کے لیے پشتے توڑنے پڑے جس سے بہت سے دیہات زیرآب آچکے ہیں، پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوگئے۔ سیالکوٹ جیسے شہر کی نہریں، نالے وغیرہ اوورفلو ہو کر نقصان دہ بن گئے وغیرہ وغیرہ۔

اس فلڈ کی مینجمنٹ بھی مختلف ہے۔ اس میں بیراج مزید اپ گریڈ کرنے تاکہ فلڈ مینجمنٹ ممکن ہو۔ نئے فلڈ چینل نکالنا، شہروں کے لیے واٹر ریچارج بنانا اور جہاں کہیں چھوٹے اور درمیانے ڈیم (جیسے چنیوٹ) ممکن ہوں، انہیں بنانا تاکہ سیلابی ریلے کا زور توڑا جا سکے اور مختلف دریاوں کے ریلے ایک دوسرے کے بعد اگلے بیراج پر پہنچیں اور کمبائنڈ فلڈ کی صورتحال پیدا نہ ہوسکے۔

پاکستانی ماڈل نیدرلینڈ سے کیوں مختلف ہوگا؟

اس لئے کہ ہم دو مختلف انداز کے ملک ہیں، جن کی زمینی صورتحال، مسائل اور چیلنجز بھی مختلف ہیں۔ نیدر لینڈ پاکستان کی نسبت بہت چھوٹا ملک ہے، کم از کم بارہ تیرہ گنا کم آبادی والا۔ بیش تر زمین سمندر کی سطح سے نیچے۔ سیلاب کا خطرہ زیادہ تر سمندر اور طوفانی لہروں سے ہے۔ دریا کم اور نسبتاً چھوٹے ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ آبادی منظم اور باشعور ہے۔ ٹیکس سسٹم کے ذریعے فلڈ مینجمنٹ کے لیے وسائل اکھٹے کر لیتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان زیادہ بڑا ملک ہے۔ بیشتر زمین سمندر سے اوپر مگر نشیبی میدانوں (پنجاب، سندھ) میں فلڈ پلین (flood plains) بہت وسیع ہیں۔ سیلاب زیادہ تر مون سون بارشوں، دریاؤں میں طغیانی اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے سے آتے ہیں۔ سمندر ہمارے ہاں بڑا خطرہ نہیں۔ پاکستان کے دریا (سندھ، جہلم، چناب وغیرہ) بڑے ہیں، وہاں گلیشئر پگھلنے سے پانی آتا ہے، جبکہ سیلابی پانی میں مٹی،گاد (silt) کہیں زیادہ ہے۔ یہ ڈیمز کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں انتظامیہ کرپٹ اور کمزور جبکہ ادارہ جاتی کمزوریاں ہیں۔ واٹر بورڈز یا لوکل ٹیکس سسٹم اتنا مضبوط نہیں جتنا نیدرلینڈ میں ہے۔

ہم نیدرلینڈ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

چند ایک چیزیں ان سے سیکھی جا سکتی ہیں۔ جیسے ہمیں سمندروں کے بجائے دریاوں کے اوورفلو پر نظر رکھنا ہوگی، اس کے لیے زیادہ محفوظ اور تگڑے بند بنائے جائیں، بیراج اپ گریڈ ہوں، نہروں کے پشتے مضبوط کیے جائیں۔

نیدرلینڈز ماڈل کا فلسفہ (پانی کو جگہ دو اور انفراسٹرکچر اور کمیونٹی ساتھ لے کر چلو) پاکستان میں فائدہ دے سکتا ہے، مگر پاکستان کو اپنی مقامی حقیقت (مون سون، بڑے دریا، زیادہ گاد، کمزور ادارے) کو دیکھتے ہوئے مقامی ایڈاپٹیڈ ماڈل بنانا ہوگا۔

نیدرلینڈ ماڈل کے تین پہلو قابلِ عمل پہلو ہیں:

دریاوں کے ساتھ فلڈ بفر زون بنانا۔ نشیبی علاقوں میں خاص طور سے ایسا کیا جائے۔

شہروں میں بارش کے پانی کی سمارٹ مینجمنٹ۔ برساتی نالوں کی صفائی اور ان کی وسعت بڑھانا، سیوریج کی بہتری، نشیبی جگہوں پر پانی چوس کنوئیں کھودنا تاکہ پانی زیرزمین چلا جائے وغیرہ۔

مقامی سطح پر واٹر بورڈ اور واٹر مینجمنٹ کےمضبوط، مستحکم ادارے، ویسے تو پاکستان میں یہ خواب ہی ہے، مگر کہنے میں کیا حرج ہے۔

اور ہاں نیدر لینڈ ماڈل کا ایک حصہ اندرون سندھ میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے، تاکہ سمندری پانی کے کٹاؤ میں کمی ہو اور ڈیلٹا بڑھ سکے۔ یہ مگر ایک علیحدہ بحث اور نشست کا متقاضی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp