اس ہفتے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن بیجنگ پہنچ رہے ہیں جہاں دوسری جنگِ عظیم میں ایشیائی محاذ پر فتح کی 80ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
چین کے لیے یہ دن صرف ایک یادگار تقریب نہیں بلکہ اس صدیوں پرانی جدوجہد کی علامت ہے جو اس نے افیون کی جنگوں سے لے کر 1945 میں جاپان کی شکست تک غیر ملکی تسلط کے خلاف لڑی۔
یہ بھی پڑھیں:’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی‘، دیمیتری ترینن کا تجزیہ
روس کی جانب سے چین کی قربانیوں کو تسلیم کرنا بیجنگ کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
ماضی سے آگے کا سفر
پیوٹن کا یہ دورہ محض تاریخ کو یاد کرنے کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کی طرف اشارہ بھی ہے۔ روس اور چین دنیا کے سامنے ایک مشترکہ وژن رکھ رہے ہیں کہ مغربی طاقتوں کی بالادستی کے علاوہ بھی ایک راستہ ہے۔
ترقی پذیر دنیا کے لیے یہ امید کا پیغام ہے، جبکہ مغرب کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ اس متبادل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یوکرین کی جنگ مرکزی نکتہ
پیوٹن اور شی کے مذاکرات میں سب سے بڑا موضوع یوکرین کی جنگ ہوگا۔ چین اس تنازعے کے حل میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنا چاہتا ہے جو روس کے مفاد میں ہے۔
مغربی ممالک روزانہ کی بنیاد پر کیف کی حمایت میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن روس اپنے BRICS اتحادیوں خصوصاً چین کی حمایت چاہتا ہے۔
چین کے پاس عالمی تجارت میں اپنی طاقت کی بدولت یورپی دباؤ کم کرنے کے طریقے موجود ہیں۔
دراصل یوکرین کا مسئلہ صرف مشرقی یورپ کی سرزمین کا جھگڑا نہیں بلکہ نئے عالمی نظام کی بنیاد ہے۔
سلامتی کونسل کو دوبارہ مرکز بنانا
روس اور چین چاہتے ہیں کہ عالمی سیاست کا مرکز دوبارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہو، جسے مغرب نے حالیہ برسوں میں پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چین اور روس کو سلامتی و ترقی کے مشترکہ مفادات کا دفاع کرنا چاہیے، شی جن پنگ
اگر ماسکو اور بیجنگ مل کر اس ادارے کو فعال کرتے ہیں تو یہ کثیرالجہتی دنیا کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اس عمل میں شامل ہوتا ہے یا نہیں۔
یالٹا کانفرنس
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا روس، چین اور امریکا کی کسی سہ ملکی سربراہی ملاقات کا امکان ہے، جیسا کہ 80 سال پہلے یالٹا کانفرنس ہوئی تھی۔ مگر اگر ایسا اجلاس منعقد ہوا تو یہ تاریخ کا ایک نیا موڑ ہوگا۔
گریٹر یوریشیا کا خواب
فوری مسائل کے ساتھ ساتھ پیوٹن اور شی کا ایک بڑا ایجنڈا ’گریٹر یوریشیا کا قیام‘ بھی ہے۔ اس منصوبے میں شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین اکنامک یونین اور چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ سب شامل ہیں۔
یہ سب مل کر سلامتی اور معیشت میں ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دے سکتے ہیں جو پہلی بار مغرب کی بجائے خود ایشیا طے کرے گا۔
برابری اور احترام پر مبنی نظام
یہ سفر آسان نہیں، ماسکو اور بیجنگ کو طویل مذاکرات کرنا ہوں گے، لیکن موقع حقیقت ہے۔ ایک ایسا عالمی نظام ممکن ہے جو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ برابری اور باہمی احترام پر کھڑا ہو۔
اگر ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو آنے والے برسوں میں ’گریٹر یوریشیا‘ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔
تاریخ لکھنے کا وقت
اس ہفتے بیجنگ میں صرف تاریخ یاد نہیں کی جا رہی، بلکہ نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے—اور وہ روسی اور چینی سیاہی سے۔
بشکریہ: رشیا ٹو ڈے