کیا سیلابی پانی سمندر میں جانے سے واقعی ضائع ہو جاتا ہے؟

پیر 1 ستمبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد سب سے اہم سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعی دریا کا پانی سمندر میں جانے سے ضائع ہو جاتا ہے؟ یا یہ وہی پانی ہے جو سندھ ڈیلٹا، زراعت اور زیرِ زمین پانی کے نظام کو زندہ رکھنے کے لیے لازمی ہے؟

ماہرین کے مطابق ڈیمز اور ذخائر میں پانی بچانا یقیناً اہم ہے، مگر یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ سمندر تک پانی پہنچنا بذاتِ خود ایک ماحولیاتی اور زرعی ضرورت ہے۔ اگر یہ توازن نہ رکھا جائے تو نہ صرف ڈیلٹا اور سمندری حیات تباہ ہوں گی بلکہ ملک کی زرعی معیشت بھی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی اجازت اور خواہش کے باوجود پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹیں کیا ہیں؟

ماہر ماحولیات محمد توحید کے مطابق سندھ ڈیلٹا کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ کم از کم 5 کروڑ ایکڑ فٹ (MAF) پانی کا سمندر میں گرنا لازمی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ پانی نہ پہنچے تو سمندری پانی زمین کے اندر داخل ہو کر زمین کو بنجر بنا دیتا ہے، جنگلات اور آبی حیات ختم ہونے لگتی ہیں اور کاشتکاری کے نظام پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

’پانی کی ایک مخصوص مقدار کا سمندر تک پہنچنا ضروری ہے‘

محمد توحید کے مطابق دریاؤں کے زیادہ پانی کو ڈیمز یا ذخائر میں محفوظ کرکے زراعت اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم ایک مخصوص مقدار کا سمندر تک پہنچنا لازمی ہے تاکہ سندھ ڈیلٹا اور اس کا قدرتی ماحول قائم رہ سکے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد توحید نے بتایا کہ دریاؤں کے پانی کا سمندر تک پہنچنا قدرتی ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔ جب دریا کا پانی سمندر تک جاتا ہے تو راستے میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر (aquifers) ریچارج ہوتے ہیں، کھارا پانی اندرونی زمینوں میں داخل نہیں ہوتا، اور زراعت کے لیے زمین زرخیز رہتی ہے۔

’سندھ کے ڈیلٹا میں یہ پانی مینگرووز، مچھلیوں اور مقامی روزگار کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے۔ اگر پانی سمندر تک نہ پہنچے تو ڈیلٹا سوکھ جاتا ہے، سمندر کا کھارا پانی زمینوں کو بنجر بنا دیتا ہے، زیرِ زمین پانی کھارا ہو کر پینے کے قابل نہیں رہتا، اور کسانوں و ماہی گیروں کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے دریا کا قدرتی بہاؤ سمندر تک پہنچنا زراعت، پانی کے ذخائر اور ماحولیاتی نظام کی بقا کے لیے لازمی ہے۔‘

’پانی سمندر تک پہنچتے ہوئے راستے میں زیر زمین آبی ذخائر کو ریچارج کرتا ہے‘

ماہر ماحولیات ڈاکٹر عارف حسین نے کہاکہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سیلابی پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پانی ضائع نہیں ہوتا بلکہ ماحولیاتی نظام کے لیے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے مطابق جب یہ پانی سمندر تک پہنچتا ہے تو راستے میں زیرِ زمین آبی ذخائر کو ریچارج کرتا ہے، زمین کی زرخیزی بڑھاتا ہے اور ڈیلٹا کو وہ نمی فراہم کرتا ہے جس کے بغیر اس کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔

انہوں نے کہاکہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پانی سمندر میں جا رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسا نظام موجود نہیں جو ضرورت کے مطابق پانی کو محفوظ بھی کر سکے اور ڈیلٹا کے حصے کا بہاؤ بھی برقرار رکھ سکے۔ اگر یہ توازن نہ رکھا گیا تو وقتی فائدے کے لیے زیادہ پانی روکنے کی پالیسی مستقبل میں زرعی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال دے گی۔

ڈاکٹر عارف کے مطابق سیلابی پانی کو Integrated Flood Management کے ذریعے بیک وقت زرعی زمینوں، زیرِ زمین ذخائر اور سندھ ڈیلٹا کے لیے فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی کو صرف ضائع سمجھنے کے بجائے ایک قدرتی چکر کے طور پر دیکھنا ہوگا، جہاں ہر قطرہ ماحولیات اور معیشت دونوں کے لیے قیمتی ہے۔

’سندھ ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کے لیے کم از کم 5 کروڑ ایکڑ فٹ سالانہ پانی درکار ہے‘

ایک اور ماہر ماحولیات محمد عثمان کا کہنا ہے کہ دریاؤں کے پانی کو مکمل طور پر ڈیمز یا ذخائر میں روکنے کے بجائے ایک مخصوص مقدار میں سمندر تک پہنچانا لازمی ہے کیونکہ یہ عمل ماحولیاتی توازن اور ملکی معیشت دونوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔

ان کے مطابق سندھ ڈیلٹا ایک نہایت حساس ماحولیاتی خطہ ہے، جسے زندہ رکھنے کے لیے کم از کم 5 کروڑ ایکڑ فٹ سالانہ پانی درکار ہے۔ یہ پانی جب سمندر تک پہنچتا ہے تو میٹھے اور کھارے پانی کے توازن کو برقرار رکھتا ہے، جس سے نہ صرف مینگرووز کے جنگلات اور سمندری حیاتیات کو تحفظ ملتا ہے بلکہ مقامی کمیونٹیز کے روزگار کے ذرائع بھی محفوظ رہتے ہیں۔

’سمندر تک مطلوبہ پانی نہ پہنچا تو مسائل پیدا ہوں گے‘

محمد عثمان نے بتایا کہ اگر سمندر تک مطلوبہ پانی نہ پہنچا تو سمندری کھارا پانی اندرون سندھ میں 80 کلومیٹر تک داخل ہو کر زمینوں کو بنجر بنا دے گا، مینگرووز کے جنگلات ختم ہو جائیں گے، مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہوگی اور لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگ جائے گا، جب کہ زرعی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی بھی شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کے پنجاب سے گزر کر سندھ میں داخل ہونے پر کیا ہوگا؟

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو Integrated Water Resource Managemen ) حکمتِ عملی اپنانی ہوگی، جس میں ڈیمز کی تعمیر، فلڈ مینجمنٹ اور سندھ ڈیلٹا کے لیے کم از کم 5 MAF کا انوائرمنٹ فلو کوٹہ مختص کرنا ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام نہ صرف ڈیلٹا کی بقا بلکہ پاکستان کی زرعی پالیسی، فوڈ سیکیورٹی اور ماحولیاتی پائیداری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp