مشر سے پوچھا تمہیں جوا کھیلنا آتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ فلاش آتا ہے؟ بولا نہیں۔ ’تہ پہ فلاش سہ کے‘ یعنی تم نے فلاش کا کیا کرنا ہے۔ مشر انسان بن، مہمان آئے ہیں، ان میں ایک لڑکی ہے۔ یار کہتی ہے شام کو فلاش کھیلیں گے۔ مشر ایک 2 فیملیز ہمارے گھر مہمان آئی ہیں۔ یہ لڑکی پتا نہیں کیوں ایسی ہے۔ ’تا تہ قسم وئی‘ یعنی کھا قسم تو مشر میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ آؤ تاش خریدیں۔
کارخانو مارکیٹ سے تاش خریدنے گئے۔ وہاں مشر کی اعلی اخلاقیات کا اندازہ کر کے دکاندار نے وہ والی تاش پکڑا دی جس پر تصویریں ہوتی ہیں۔ مشر نے کچھ ٹوں ٹوں کر کے تاش واپس کر کے انسانوں والی تاش خریدی۔ ہم واپس مڑے تو مشر بولا یہ لے اب جا کر کھیلنا۔ مشر تمہیں عقل کب آئے گی تاش تو ہے فلاش کھیلنی نہیں آتی۔
یارا اسی لڑکی سے پوچھ لینا کہ تم لوگ کس رولز پر کھیلتے ہو۔ سن جیتنے کی ضرورت نہیں ہے ہارتے رہو بیٹھے رہو۔ جیت گئے تو جلدی بھگا دیں گے۔ ویسے ہے کیسی، اتنی ہی خوبصورت جتنی بتائی؟ یار مشر اس کی آنکھیں نیلی یا سبز ہیں پتا نہیں دیکھا ہی نہیں جاتا اس کی طرف۔ نہ مڑا بس فوری جا گھر۔ مشر اپنی طرف سے ایک لو اسٹوری سوچ رہا تھا، شاید چچا بننے کی تیاری کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کا بیلنس آؤٹ اور پاکستان کا پرفیکٹ فٹ ہوگیا
شام کو ہم لوگ کھیلنے بیٹھے تو پتہ لگا کہ فلاش نہیں بلف کھیلنی ہے۔ قواعد بتائے گئے ہارنے پر ایک روپیہ بھی ہارنا ہوتا تھا۔ قدرت بھی مذاق کے موڈ میں تھی کھیلنے والے ہم دو ہی رہ گئے۔ ہار ہار کر میرا برا حال ہو گیا۔ وہ کچھ پوچھتی میں بتاتا، ٹھیک بھی ہوتا تو وہ کوئی دھاندلی کر کے ایک روپیہ جیت جاتی۔ ہارنے کی وجہ وہی نیلی سبز آنکھیں تھیں۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ ’سترگو کے پیریان دی‘ آپ ساحرانہ آنکھیں سمجھ لیں۔
70،80 روپے میں ہار چکا تھا۔ اس ظالم نے جب پوچھا تم کبھی واہگہ بارڈر گئے ہو۔ وہ جب کچھ پوچھتی میں تو اسے دیکھتا، سوال سن کر گڑبڑا جاتا، اندازہ غلط لگاتا اور ایک روپیہ ہار جاتا۔ اس کی بات سنی تو اس سے پوچھا تم نے طورخم بارڈر کے پار جانا ہے؟ آپ لے جاسکتے ہیں؟ کیوں نہیں جب کہو۔ اس آفر پر وہ اتنا گڑبڑائی کے جو ساٹھ 70 روپے جیتے تھے ہار گئی۔ اس نے پوچھا صبح چلیں؟ ضرور چلیں بس اپنے بڑوں سے اجازت خود لیں۔ مل گئی سمجھیں، یاہو۔
مشر کو کیا بتایا وہ کیسے راضی ہوا۔ اس ٹور کا انتظام کیسے ہوا، ڈبل کیبن پک اپ کیسے آئی، اس سارے ٹور کے لیے سرمایہ کیسے آیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ ہم یہ سب کچھ کر کے لنڈی کوتل کی جانب سویرے سویرے رواں دواں تھے۔ مشر نے مہمانوں کے لیے بہت دماغ لڑا کر انتظامات کیے تھے۔ اس نے ایک بہت بڑا گرما بھی خرید لیا تھا۔ اس گرمے کو وہ گود میں رکھ کر بیٹھا ہوتا تھا جہاں کہیں ہم فوٹو بنانے یا جگہ دیکھنے اترتے وہ اپنا گرما کندھے پر رکھ کر ساتھ اتر جاتا۔
مشر کا گرما اٹھا اٹھا کر رنگ لال ہوا ہوا تھا۔ جب اس ظالم مہمان نے بولا کہ لائیں اس گرمے کو کاٹ ہی لیتے ہیں۔ ہم دونوں سائڈ پر کھڑے ہو گئے مہمانوں نے گرما کاٹ کر کھاتے ہوئے خوب مستی کی۔ وہ ڈبل کیبن میں پیچھے بیٹھ گئے انہوں نے گرما کھایا، گانے گائے نعرے لگائے۔
مزید پڑھیے: بی ایل اے پر نئی امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے ایک نادر موقع
3،4 لڑکیوں کو اس طرح جمرود روڈ پر خوش خرم دیکھ کر ایک حاجی صاحب نے بھی اپنی گاڑی روکی۔ لڑکیوں کو قریب سے دیکھنے کی نیت سے پاس آئے۔ ’اے ہے پنجابیانو‘ بولا اور سر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھ کر توبہ استغفار کی۔ جب وہ روانہ ہونے کو تھے تو مشر آگے بڑھا اور بولا ’اے بابا اے بابا ستہ خدائے۔۔۔‘ حاجی صاحب جو پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ پنجابیوں نے ایجنسی فتح کر کے ماڈرن کر دی ہے۔ اب آفریدی پشتو سن کر جو کہا وہ بس اتنا ہی تھا کہ ’اے ہے آفریدو‘ کہ ہائے ہائے آفریدیو۔
ہم لوگ طور خم پہنچے پاک افغان سرحد کا دورہ کیا۔ اس کے بعد مشر نے سائیڈ راستوں سے سب کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اونٹوں پر تجارتی سامان واپس پاکستان آیا کرتا تھا۔ اس راستے سے ہم افغانستان داخل ہو گئے۔ اپنے مہمانوں کو بتایا کہ اب آپ افغانستان میں ہیں۔ ان کے رنگ اڑ گئے وہ بھاگ کر 6 گز دور پاکستان میں داخل ہو گئے۔ پاکستانی اور افغانی خاصہ دار (سپاہی) اور آنے جانے والے ان کی اس پھرتی پر ہنسنے لگے۔ ہمیں وہیں کھڑے دیکھ کر ان حسینوں نے دوبارہ ہمت کی اور پھر افغانستان پہنچ گئے۔
وہاں بیٹھ کر پھر ہم نے ’تریخ چائے‘ پی۔ تریخ چائے، کالی چائے کا قہوہ ہوتا بغیر چینی کے۔ واپسی پر ان حسین مہمانوں نے ہم سے سرحدی لائین کی نشاندہی کرائی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کود کود کر پاکستان افغانستان کھیلا۔ جمپ لگا کر کبھی ادھر کبھی ادھر۔ واپسی کے راستے میں ہم نے رک کر نشانہ بازی کی ہلکی پھلکی مشق بھی کی۔ اس دورے کے بعد جب کبھی اس جگہ جانا ہوا میں نے اور مشر نے لوگوں کی نظر بچا کر، لائین پر کھڑے ہو کر، کود کود کر افغانستان پاکستان ضرور گایا۔
مزید پڑھیں: مودی کی 56 انچ کی چھلنی چھاتی اور جھکی جھکی نگاہیں
مشر کا فون آیا تھا اس نے نیلی آنکھوں والی کا پوچھا۔ اسے کہا کہ پتا نہیں کدھر ہے جدھر بھی ہے مزے سے ہو گی۔ مشر بولا یار اب ہم اس طرح بارڈر پر نہیں جا سکیں گے، وہاں باڑ لگ گئی ہے۔ نہ ویسے کود کود کر پاکستان افغانستان گا سکیں گے۔ نہ کسی مہمان کو ایسے سیر کرانے لے جا سکیں گے۔
مشر کا گھر تو ہے ہی طورخم بارڈر کے پاس۔ اس کا دکھ تو سمجھ آتا ہے پر دکھی تو میں بھی ہوں۔ دکھی تو ہماری مہمان بھی ہو گی۔ ہم تینوں کو افغانوں کا دکھ بھی سمجھ آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی لکھی اس پرانی تحریر کے ساتھ افغانوں کی واپسی کو باعزت بنانے، لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنے کی درخواست ان سب سے ہے جو ان انتظامات میں شامل ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔