گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت اب زیادہ مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہے اور مالی سال 2026 میں شرح نمو 3.25 فیصد سے 4.25 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔
کراچی میں پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کی سالانہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے، مرکزی بینک کے گورنر نے پاکستان کی معاشی پیش رفت کی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جبکہ کونسل کی قیادت اور اراکین نے برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
گورنر جمیل احمد نے بتایا کہ 2022 کے بعد پاکستان نے غیر معمولی معاشی چیلنجز پر قابو پایا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر جو 2023 کے آغاز میں صرف 2.8 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اب بڑھ کر 14.3 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کا ہدف عبور، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں 5 ارب ڈالر کا تاریخی اضافہ
گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق جاری کھاتہ خسارہ نمایاں طور پر کم ہوا ہے، جبکہ ترسیلات زر 2025 میں بڑھ کر 38 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں جو بڑی حد تک غیر رسمی ذرائع سے رسمی چینلز کی طرف منتقل ہوئی ہیں۔
جمیل احمد نے کہا کہ افراطِ زر جون 2025 میں کم ہو کر 3.2 فیصد کی تاریخی سطح تک آ گیا ہے، جس کی بدولت اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ایک سال میں شرحِ سود کو 22 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا، مالیاتی نظم و ضبط، ایکسچینج کمپنیوں میں اصلاحات اور بیرونی قرضوں کے مستحکم سطح پر رہنے نے منڈیوں کو اعتماد فراہم کیا ہے۔
’پاکستان کی معیشت اب زیادہ مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہے اور مالی سال 2026 میں شرح نمو 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہے گی، ہمارا عزم ہے کہ استحکام کو برقرار رکھا جائے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں اور افراطِ زر کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف میں رکھا جائے۔‘
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل معیشت کی جانب اہم قدم، کاروباری لائسنس کے لیے کیو آر کوڈ لازم
دوسری جانب پی ٹی سی کے چیئرمین فواد انور نے گورنر کی کامیابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو برآمد کنندگان کو درپیش بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہوگا اگرچہ معاشی استحکام حاصل کیا گیا ہے لیکن پاکستان میں کاروبار کی لاگت اب بھی غیر مسابقتی ہے۔
’برآمدی سہولت اسکیم سے ضروری خام مال کے اخراج نے برآمد کنندگان پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے، ایسے وقت میں جب عالمی منڈیوں میں پاکستان کے لیے مارکیٹ شیئر حاصل کرنے کا نادر موقع موجود ہے۔‘
فواد انور نے زور دیا کہ برآمدی سہولت اسکیم سے نکالے گئے خام مال پر عائد درآمدی ڈیوٹیز واپس لی جائیں، سیلز ٹیکس 3 سے 5 فیصد تک محدود اور قابل واپسی بنایا جائے۔ مزید یہ کہ سب کے لیے یکساں 1 فیصد ڈیوٹی ڈرا بیک اسکیم، اور اجرت و توانائی کے بڑھتے اخراجات کے لیے سبسڈی والے فائنانسنگ پروگرام فراہم کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: گزشتہ مالی سال میں اسٹیٹ بینک کا خالص منافع کتنا رہا؟ رپورٹ جاری
’ٹیکسٹائل اور ملبوسات پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یہی وقت ہے کہ حکومت جراتمندانہ پالیسی معاونت فراہم کرے تاکہ ہماری صنعت عالمی منڈی میں طویل المدتی مارکیٹ شیئر حاصل کر سکے، بجائے اس کے کہ مقابلے میں پیچھے رہ جائے۔‘
اجلاس کے اختتام پر اتفاق کیا گیا کہ برآمدات، بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر، پاکستان کی معاشی بحالی کی حکمتِ عملی کا مرکزی حصہ ہونا چاہیے، پی ٹی سی اور اسٹیٹ بینک نے پالیسی مذاکرات جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا، خصوصاً قابل تجدید توانائی اور کم شرح سود والے برآمدی قرضوں کے حوالے سے، تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان عالمی مارکیٹ میں مسابقتی رہ سکیں۔