ڈسلیکسیا اور آٹزم جیسے الفاظ تو اب عام ہوہی چکے ہیں لیکن ایک اور بیماری ڈیلومپنٹ لینگیج ڈس آرڈر (ڈی ایل ڈی) بھی ہے جو بڑی تعداد میں بچوں کو متاثر کرتی ہے مگر اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آٹزم پیدا ہونے کی وجہ اور اس کا جینیاتی راز کیا ہے؟
یہ حالت ہر 14 میں سے ایک بچے کو متاثر کرتی ہے جو کہ تقریباً 7 فیصد بنتی ہے اور بعض تحقیقات کے مطابق یہ شرح 7 سے 10 فیصد تک ہو سکتی ہے یعنی یہ بیماری عام ہے مگر اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعدادوشمار اندازوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ کچھ کم یا کچھ زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔
ڈی ایل ڈی ایک اعصابی حالت ہے جس کی وجہ سے بچوں کو زبان سیکھنے اور استعمال کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے حالانکہ ان کی ذہانت، سماعت اور نظر عام طور پر درست ہوتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بچے الفاظ سیکھنے، جملے بنانے، بات کو سمجھنے یا مؤثر طریقے سے اظہار کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ بچپن میں ہی ظاہر ہو جاتا ہے خصوصاً جب بچہ جملوں میں بات نہیں کر پاتا، ہدایات پر عمل کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے یا دوسروں کے ساتھ بات چیت سے کتراتا ہے۔
ڈی ایل ڈی کوئی وقتی یا معمولی تاخیر نہیں بلکہ ایک دیرپا مسئلہ ہے اور اگر اس کی بروقت شناخت اور علاج نہ کیا جائے جو بچے کی تعلیمی، سماجی اور جذباتی زندگی کو متاثر کر سکتا ہے ۔ یہ ایک چھپی ہوئی حالت ہے کیونکہ اس کے کوئی ظاہری جسمانی آثار نہیں ہوتے اور اکثر والدین یا اساتذہ اسے بچے کی سستی، لاپرواہی یا بدتمیزی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ تاہم اسپیچ تھراپی اور بروقت مداخلت کے ذریعے بچے کو مؤثر زبان سیکھنے میں مدد دی جا سکتی ہے بشرطیکہ علامات کو جلد پہچان لیا جائے اور سنجیدگی سے لیا جائے۔
مزید پڑھیے: حاملہ خواتین کے الٹراساؤنڈ کے دوران بولے گئے الفاظ بچوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، تحقیق
یہ ایک اعصابی نشوونما کی خرابی ہے جو بغیر کسی واضح وجہ جیسے ذہنی پسماندگی یا سماعت کی کمی کے بچوں میں زبان سیکھنے اور استعمال کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے بہت سے بچے روزمرہ گفتگو میں تو بہتر کارکردگی دکھائیں لیکن جیسے ہی زبان کا استعمال پیچیدہ ہو (جیسے کہ نصابی کتاب پڑھنا، سائنسی وضاحت سننا یا لطیفہ سمجھنا) وہ مشکل محسوس کرتے ہیں۔
چند ابتدائی علامات
ہر بچے میں ڈی ایل ڈی کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن کچھ عمومی علامات میں پری اسکول کی عمر میں بچوں کو ہدایات پر عمل کرنے میں دشواری محسوس کرنا اور لمبے جملے بنانے یا دن بھر کی سرگرمیوں کو بیان کرنے میں مشکل محصوس کرنا شامل ہیں۔
دیرپا اثرات
ڈی ایل ڈی عمر کے ساتھ خودبخود ختم نہیں ہوتی۔ اگرچہ بروقت علاج سے بہتری آ سکتی ہے لیکن مشکلات عام طور پر نوجوانی اور جوانی تک برقرار رہتی ہیں۔
تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ڈی ایل ڈی کے شکار نوجوانوں کو پڑھنے اور لکھنے میں زیادہ مسائل ہوتے ہیں (معمولی سے شدید تک) اور اسکول جلد چھوڑنے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں بعد میں روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں رکاوٹیں آتی ہیں اور خوداعتمادی اور ذہنی صحت کے مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
بچے کی ابتدائی عمر میں ہی میں توجہ دینا بہتر
ابتدائی مرحلے پر مداخلت بہت ضروری ہے۔ اگر کسی بچے کو 4 سے 5 سال کی عمر میں مدد مل جائے تو وہ کہیں بہتر ترقی کر سکتا ہے بہ نسبت اس بچے کے جو 9 سے 10 سال کی عمر میں مدد حاصل کرے جب وہ پہلے ہی تعلیمی ناکامی اور مایوسی کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔
ڈی ایل ڈی کی تشخیص ماہرین زبان یا اسپیچ تھراپسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے مگر والدین اور اساتذہ اکثر سب سے پہلے محسوس کرتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: بچوں میں ’ڈیجیٹل ڈیمینشیا‘ کا بڑھتا ہوا خطرہ
اگر کوئی بچہ زبان سیکھنے میں ہم عمر بچوں کے برابر ترقی نہیں کر رہا، چھوٹے جملوں میں بات کرتا ہے یا گفتگو سے گریز کرتا ہے تو فوراً ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ بروقت اقدام انتہائی اہم ہے۔