کیا عمران خان صاحب کو 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگ لینی چاہیے؟ یہ سوال ہتھیلی پر رکھے انگارے جیسا ہی سہی لیکن اس معاشرے، ملک اور خود تحریک انصاف سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اسے پوری سنجیدگی سے زیر بحث لایا جائے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ معاشرہ آگے بڑھ چکا ہے اور یہ پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس باب میں کسی کو شک ہے تووہ سیلاب کے دوران، وزرائے کرام کے بیانات اور تاویلات پڑھ کر عین الیقین کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ 90 کی دہائی سے نکل ہی نہیں پا رہے، سیلاب زدگان کے لیے خوراک کے پیکٹوں پر بھی یہ اپنی تصاویر لگواتے ہیں۔
ادھر تحریک انصاف طفلان خود معاملے کے رحم و کرم پر ہے۔ انتخابی سیاست سے نا آشنا لوگوں کو قیادت کا منصب سونپ دیا گیا ہے اور وہ سیاست کے ساتھ وہی سلوک فرما رہے ہیں جوکوئی بچہ اپنے پہلے کھلونے کے ساتھ فرماتا ہے۔
ایک سنجیدہ حزب اختلاف کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ حکومت کو اس وقت نہ کسی متبادل سیاسی قوت کا ڈر ہے اور نہ اس پر کسی بامعنی حزب اختلاف کا چیک اینڈ بیلنس ہے۔ اسے واک اوور ملا ہوا ہے۔ اتنا جمود سیاست کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ مقبول ترین بھی لکھ دوں تو غلط نہ ہو۔ لیکن اس کی حالت برف کے اس باٹ جیسی ہے جو دھوپ میں نہیں، آگ پر رکھا ہو۔ یہ لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے۔ اس کا نصیب دیکھیے، یہ کی بورڈ واریئرز اور یو ٹیوبرز کے دھندے کا ایندھن بن کر رہ گئی ہے۔ وہ ریٹنگ اور ڈالروں کے تعاقب میں آگ لگاتے ہیں اور تحریک انصاف کے کارکنان شدت جذبات سے آتش فشاں بن جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی سیاسی جماعت ہو جس نے اپنے کارکنان کو اس بے رحمی سے کمرشل یوٹیوبرز کے رحم و کرم پر چھوڑا ہو۔
غم و غصے کی حالیہ کیفیت میں تحریک انصاف اس معاشرے کی فالٹ لائن بنتی جا رہی ہے۔ اس کا کارکن اپنے خان کے سوا دنیا کی موجودہ ہر شے کو غیر ضروری جھاڑ جھنکار سمجھتا ہے جسے پہلی فرصت میں تلف کر دینا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ صرف یہی ہیں جو پارلیمانی سیاست کے اکلوتے دیانت دار اور اکلوتے مظلوم ہیں۔
فوج، عدلیہ، سیاست دان اور حتیٰ کہ ریاست وہ سب کے بارے میں گرہ سی لگائے بیٹھا ہے۔ کوئی گرہ لگاتا ہے: خان نہیں تو پاکستان کی پرواہ نہیں۔ کوئی رجز پڑھتا ہے: خان نہیں تو بہتر ہے ہم افغانستان چلے جائیں۔ حتی کہ بھارت سے جنگ کے دوران بھی بعض اکاؤنٹ اپنی ہی ریاست کے خلاف متحرک تھے۔
حکومت اور اسٹیبلمشنٹ کی مخالفت میں یہ گاہے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ یہ ریاست ہی کو حریف سمجھ لیتے ہیں۔ یہ کیفیت نہ صرف خود ایک المیہ ہے بلکہ مزید المیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ ہمیں اس فالٹ لائن بھرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت جو مرضی تاویلات کر لے، حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کا بوجھ سر سے اتارے بغیر بات بننا مشکل ہے۔ 9 مئی کو جو ہوا، سب کے سامنے ہوا اور ایک جہان نے دیکھا۔ یہ سیاسی احتجاج نہیں تھا، یہ ملک میں خانہ جنگی کی دستک تھی۔
بلاشبہ تحریک انصاف کے پاس پوسٹ ٹروتھ کی غیر معمولی قوت ہے۔ یہ چاہے تو اپنے کھنڈر کو تاج محل بنا لے۔ تاہم 9 مئی کی غلطی پر ڈٹ جانے سے کہیں بہتر ہے اس غلطی کو تسلیم کر لیا جائے اور اس پر معذرت کر لی جائے۔
9 مئی کے واقعات پر معافی انا کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ معافی تحریک انصاف نے شہباز شریف، آصف زرداری یا اسٹیبلشمنٹ سے نہیں مانگنی۔ یہ معافی ان شہیدوں سے مانگنی ہے جن کی یادگاروں کی توہین کی گئی، یہ ان شہیدوں کے ورثا سے مانگنی ہے، یہ اپنی افواج سے مانگنی ہے۔ یہ سب کچھ تو سانجھا ہے۔ اس میں کیسی انا؟
اس معافی سے کسی کی عزت کم نہیں ہو گی، وہ بڑھے گی۔ کارکنان کے کندھوں پر سالوں سے پڑا اضافی بوجھ ہٹے گا۔ ان کی نفسیاتی گرہین کھلیں گی اور فالٹ لائن بھرنا شروع ہو جائے گی۔
ہاں اگر تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ غلطیاں تو سب نے کیں اور واجب معافیوں کی فہرست طویل ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے سیاسی کردار پر معافی مانگنی چاہیے تو بعد میں اس پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ اس میں پھر دیکھنا ہو گا کہ کس کس کے ذمے کون کون سی معافی ہے۔ دوسرے کسی کے کندھے پر بیٹھ کر آئے تو تحریک انصاف خود کیسے اقتدار میں آئیَ تھی؟ دوسروں کا دامن صاف صاف نہیں تو تحریک انصاف کی پاکی داماں کون سی قوس قزح بنی پھرتی ہے؟
سیاست بند گلی کی نکڑ پر خود پسندی اور کا جزیرہ بنانے کا نام نہیں، یہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ سیاست میں سب ہی کا کردار ایک جیسا ہے۔ کچھ خوبیاں تو کچھ خامیاں۔ نہ دوسرے نرے چور ہیں نہ تحریک انصاف والے اللہ کے ولی۔ اگر دوسروں کو اقتدار شفافیت سے نہیں ملا تو اقتدار آپ کو کون سا شیشے کی طرح شفاف ملا تھا۔ جو دوسروں کے نامہ اعمال کی تیرگی قرار پاتی ہے وہ آپ کی زلف کا حسن نہیں بن سکتی۔
اس سوال کی معنیوت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ کی جدو جہد کا مقصد کیا ہے؟ آپ آئین کے چاہنے والے ہیں یا آپ ’ایک پیج‘ کی شب غم کے پروانے ہیں اور اب اماوس کی راتوں میں آپ کو ’ایک پیج‘ کے وہ موسم یاد آتے ہیں جب جون میں برف پڑتی تھی اور دسمبر گرم ہوتا تھا؟ اہل سیاست سے بات کرنے سے گریز اور اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ کرنے کے لیے آج بھی بے تابیاں، یہ آئین کا جھگڑا ہے یا ایک پیج کا غم؟
یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مائل ہوں تو آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دے ڈالیں اور آپ کا مزاج برہم ہو تو آپ اس کے نام فرد جرم مرتب کرنا شروع کر دیں۔ اور اس پر بھی آپ بضد ہوں کہ آپ کے دونوں مؤقف اپنے اپنے عہد کی لازوال صداقت تسلیم کر لیے جائیں۔
9 مئی کا تعلق سیاست کی سرگرمی سے نہیں تھا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی، جو اب ایک گرہ بن چکی۔ اس گرہ کو کھول لینا ہی حکمت ہے۔
6 ستمبر کو یوم دفاع ہے۔ زبان قال سے یہ پتھر اٹھانے میں ضد، انا اور حجاب مانع ہو تو ابتدا زبان حال سے بھی کی جا سکتی ہے۔ جن یادگاروں پر 9 مئی کو جنون کی آگ چھوڑ آئے تھے، وہاں 6 سمتبر کو محبتوں کے تازہ پھول رکھ دیجیے۔ کیا عجب کہ ان کی خوشبو سے ماحول بہتر ہونا شروع ہو جائے۔
تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے اور 9 مئی ایک سنگین غلطی تھی، اس کی کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔