چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چینی قوم کی نشاۃ ثانیہ کو روکا نہیں جاسکتا۔ دنیا میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے جو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔
بیجنگ میں دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے 80 سال مکمل ہونے پر چین کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا جس کی قیادت صدر شی جن پنگ نے کی۔ اس موقع پر شی جن پنگ نے کہا کہ چینی قوم کی نشاۃِ ثانیہ کو روکا نہیں جاسکتا اور دنیا میں امن اور ترقی کا عمل بالآخر غالب آئے گا۔

تقریب میں پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف سمیت 26 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن شی کے ہمراہ اس تقریب میں موجود تھے۔ کم جونگ اُن اپنی بیٹی جو اے کے ساتھ پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی تقریب میں شریک ہوئے، جو ان کی ممکنہ جانشین سمجھی جاتی ہیں۔ انڈونیشیا کے صدر پرابوو سبیانتو نے بھی غیر متوقع طور پر شرکت کی، حالانکہ وہ اپنے ملک میں شدید احتجاجات کا سامنا کر رہے ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انسانیت ایک بار پھر امن یا جنگ، مکالمہ یا محاذ آرائی، باہمی کامیابی یا صفر جمع کھیل کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ دنیا میں امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب ممالک ایک دوسرے کو برابر سمجھیں اور باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔
انہوں نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا کہ وہ ان اسباب کو ختم کریں جو جنگوں کی بنیاد بنتے ہیں اور تاریخی سانحات کے اعادے کو روکیں۔
پریڈ کی نمایاں جھلکیاں:
تقریباً 50,000 سے زائد افراد تیانانمین اسکوائر میں موجود تھے۔
فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا، جس میں ہائیپر سونک میزائل، ڈرونز، جدید ٹینک اور فضائی شو شامل تھے۔

اس پریڈ کے موقع پر چینی دارالحکومت بیجنگ کی تمام بڑی سڑکیں اور سارے اسکول بند کر دیے گئے، جبکہ سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے۔
سابق چینی رہنما ماؤ زے تنگ کے طرز کے سوٹ میں ملبوس، شی جن پنگ نے تقریب کے آغاز میں تقریباً 2 درجن غیر مغربی ممالک کے رہنماؤں کو خوش آمدید کہا۔ انہیں انگریزی میں یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا: ‘Nice to meet you’ اور ‘Welcome to China’۔
چین نے خود کو عالمی نظام کے نئے معمار کے طور پر پیش کردیا
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ جنگِ عظیم دوم چین کی عظیم نشاۃِ ثانیہ میں سنگِ میل ثابت ہوئی، جہاں چین نے جاپانی جارحیت پر قابو پا کر عالمی قوت کے طور پر ابھرنے کا سفر شروع کیا۔
انہوں نے امریکا کی ’بالادستی کی سیاست‘ اور ’ٹرمپ کی تجارتی جنگوں‘ پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو نئی عالمی صف بندی کی ضرورت ہے جو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پریڈ کو امریکا کے لیے چیلنج ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے چین کے ساتھ ’بہت اچھے تعلقات‘ ہیں، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’چین کو ہماری ہم سے زیادہ ضرورت ہے۔‘

ماہرین کے مطابق یہ پریڈ اس بات کا اظہار تھی کہ چینی فوج مکمل طور پر شی جن پنگ کے پیچھے کھڑی ہے اور بیجنگ اب خود کو عالمی نظام کے نئے معمار کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
چین میں منعقد ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی پریڈ کا انعقاد، اس کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت اور جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کا اظہار تھا۔ صدر شی جن پنگ بیجنگ کو امریکا کے بعد کے عالمی نظام کا نگہبان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔














